پاکستان میں قانون سازوں اور مبصرین نے امریکہ کی طرف سے پاکستان کو ایف سولہ لڑاکا طیاروں کی خریداری کے لیے دی جانے والی مالی سہولت سے انکار کو دونوں ملکوں کے تعلقات کے مستقبل کے لیے نقصان دہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان تعلقات میں توازن بہت ضروری ہے۔
امریکہ نے آٹھ ایف سولہ طیاروں کی فراہمی کے لیے بیرون ملک فوجی معاونت کے اپنے فنڈز سے 40 کروڑ ڈالر سے زائد معاونت فراہم کرنی تھی جب کہ بقیہ 27 کروڑ ڈالر پاکستان کو ادا کرنے تھے۔
لیکن کانگریس کے بعض ارکان کے اعتراض کے بعد امریکہ نے پاکستان کو آگاہ کیا کہ اب طیاروں کی خریداری کے لیے پوری رقم پاکستان کو ہی ادا کرنا ہو گی۔
اس معاملے پر قانون سازوں کی برہمی پاکستان کے ایوان بالا "سینیٹ" میں بھی دیکھی گئی جہاں چیئرمین رضا ربانی کا کہنا تھا کہ وہ امریکی کانگریس اور قانون سازوں کا احترام کرتے ہیں لیکن جس طرح سے زر اعانت کو روکا گیا اس پر انھیں بھی تحفظات ہیں۔
اجلاس کے دوران بعض قانون سازوں کی طرف سے یہ بات بھی سامنے آئی کہ امریکہ کا پاکستان اور بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات میں جھکاؤ بھارت کی طرف زیادہ ہے۔
حکمران جماعت مسلم لیگ ن کے سینیٹر اور سابق لیفٹیننٹ جنرل صلاح الدین ترمزی نے جمعرات کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ امریکہ ان کے ملک کے نقطہ نظر کو ماننے کی بجائے بھارت کے خدشات کو تسلیم کر رہا ہے۔
"ہندوستان نے یہ اعتراض کیا کہ یہ طیارے ان کے خلاف استعمال ہوں گے یہ ان کا اندازہ ہے لیکن جو حقیقت ہمارے سامنے ہے کہ ہم تو ایک لڑائی لڑ رہے ہیں دہشت گردی کے خلاف، یہ سوچنے کی بات ہے کہ ہم انھیں (امریکہ کو) کس طرح قائل کریں کہ ہمیں یہ طیارے انسداد دہشت گردی کے لیے ضروری چاہیئں جو مشترکہ مفاد ہے امریکہ کا بھی اور ہمارا بھی۔"
سینٹ کے اجلاس میں چیئرمین رضا ربانی نے امریکہ پر پاکستان کے قوانین کا احترام نہ کرنے کا بھی الزام عائد کیا اور اس ضمن میں انھوں نے امریکی صدارتی نامزدگی کے لیے کوشاں ریبپلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کے اس حالیہ بیان کا حوالہ دیا جس میں انھوں نے کہا تھا کہ اگر وہ صدر منتخب ہوگئے تو وہ القاعدہ کے روپوش رہنما اسامہ بن لادن کی نشاندہی میں سی آئی اے کی مدد کرنے والے ڈاکٹر شکیل آفریدی کو پاکستان کی جیل سے ان کے بقول دو منٹوں میں چھڑوا لیں گے۔
دفاعی امور کی تجزیہ کار ماریہ سلطان بھی ایف سولہ طیاروں کی خریداری میں معاونت روکے جانے کو پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کے لیے منفی اثرات کا حامل اقدام قرار دیتی ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ امریکہ کے اس خطے میں اسٹریٹیجک مفادات ہیں جنہیں اسے مد نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔
"پاکستان اور امریکہ کے درمیان جو اعتبار کی فضا تھی اس میں بھی ایک مضر عنصر پیدا ہوا ہے۔۔۔پاکستان کے ساتھ منفی تعلقات اور اس نہج پر جانے سے خطے میں بہتری نہیں آئے گی۔"
اوباما انتظامیہ اس بات کا اعتراف کرتی ہے ایف سولہ لڑاکا طیاروں کی پاکستان کو فراہمی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اس ملک کی استعداد کار کو بڑھائے گی جو کہ خود امریکہ کے مفاد میں ہے، لیکن عہدیداروں کے بقول بعض گانگریس ارکان کے اس پر اعتراضات کے بعد اس کے لیے یہ زر اعانت فراہم کرنا ممکن نہیں۔
پاکستان کے دفتر خارجہ کے ترجمان نفیس ذکریا نے جمعرات کو ہفتہ وار نیوز بریفنگ میں کہا کہ امریکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستانی کوششوں کا اعتراف کرتا ہے اور انھیں امید ہے کہ بین الاقوامی برادری خصوصاً امریکہ اس ضمن میں پاکستان کے ساتھ اپنا تعاون جاری رکھے گا۔