پاکستان کے صوبہٴ پختونخواہ میں آئی ایس آئی کے سابق سربراہ اور دفاعی تجزیہ کار برگیڈیئر (ر) اسد منیر نے کہا ہے کہ پاکستان امریکہ تعلقات میں ریمنڈ ڈیوس کیس کے بعد سر مہری دیکھی گئی اور دو مئی کے بعد اُن کے بقول، یہ تعلقات خراب ہوئے ، جِن میں، ’ فی الحال، کوئی بہتری نہیں آئی‘۔
اُن کے بقول، امداد بند ہونے کے معاملے کے بعد پاکستان کی حکومت نے بھی اپنا مؤقف سخت کردیا ہے۔ پاکستان چاہتا ہے کہ ایسی پابندیاں لگائی جائیں تاکہ دوبارہ دو مئی والا واقعہ نہ ہو۔
اُنھوں نے یہ بات اتوار کو ’پاک امریکہ تعلقات ‘ کے موضوع پر ’وائس آف امریکہ‘ سے بات چیت میں کہی۔اُن سے سوال کیا گیا تھا کہ مبینہ طور پر امریکی سفارت کاروں پر سفری پابندیاں ڈرون حملوں کو ختم کرنے کے مطالبات کے حوالے سے ہیں یا پھر اِس کے پسِ پردہ محرکات کچھ اور ہیں؟
پاکستان، امریکہ اور افغانستان کے اعلیٰ عہدے داروں کے درمیان اسلام آباد میں اِس ہفتے ہونے والی ملاقات سے برگیڈیئر (ر) اسد منیر مثبت نتائج کی توقع کرتے ہیں۔ اُن کے مطابق، باہمی تعلقات ’بہتری کی طرف جائیں گے‘۔
’ابھی جو تعلقات ہیں، اتنے خراب یہ کبھی بھی نہیں رہے۔ لیکن، چونکہ، اوباما انتظامیہ نے بھی یہ فیصلہ کیا ہوا ہے، اور فوج کا انخلا شروع ہوگیا ہے اور 2014ء تک اُنھوں نے ہدف مقرر کر لیا ہے۔ اُن کی معیشت کو بھی مسائل درپیش ہیں۔ اِس لیے اُن کے لیے پاکستان کا ساتھ دینا بہت اہم عنصر ہے۔ میرا خیال ہے، پاکستان کی طرف سے کچھ شرائط کے ساتھ یہ حالات جو اب جِس نہج پر ہیں اُس سے کافی بہتر ہوجائیں گے۔‘
امریکی سفارت کاروں کی مبینہ سفری پابندیوں پر تبصرہ کرتے ہوئے ممتاز تجزیہ کار حسن عسکری رضوی کا کہنا تھا کہ یہ تعلقات میں کشیدگی کا آئینہ دار ہے۔
ڈاکٹر رضوی نے کہنا تھا جہاں تک سفارت کاروں کا معاملہ ہے یہ عام طور پر تعلقات میں خرابی ، شکایات ، یا تلخی کی غمازی کرتا ہے۔ اُن کے خیال میں سفارت کاروں کو پشاور جانے سے روکنے کا معاملہ ابتدائی طور پر امریکی سفارت کاروں سے شروع ہوا۔ اُن کے بقول، ’فیس سیونگ کے لیے‘ پاکستان نے اب یہ بات کہی ہے کہ’ یہ سب کے لیے ہے‘۔ اُنھوں نےکہا کہ پاکستان اور افغانستان کے لیے امریکہ کے نمائندہٴ خصوصی مارک گروسمین اِس وقت پاکستان میں ہیں، اور اِس امید کا اظہار کیا کہ مارک گروسمین کے دورے کے دوران ’یہ معاملہ طے ہوجائے گا‘۔
پاکستان کے انٹیلی جنس اداروں کی طرف سے قبائلی علاقے میں ڈرون حملوں کو ختم کرنے کے مبینہ مطالبے کو ڈاکٹر حسن عسکری رضوی پاکستان کی پالیسی میں ایک واضح تبدیلی قرار دیتے ہیں۔
اُن کی رائے میں اِس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان کی پالیسی میں بڑی واضح تبدیلی آگئی ہے۔ پہلے حکومت خود ڈرون حملوں کے بارے میں کچھ نہیں کہتی تھی۔۔۔ اور اگر، پاکستانی میڈیا میں آنے والی یہ خبر صحیح ہےتو اِس کا مطلب یہ ہے کہ وہ باقاعدہ اِس مسئلے کو اعلیٰ سطح پر اُٹھا رہے ہیں، اور ، اب ’ دیکھنا یہ ہے کہ اِس میں وہ کیا درمیانہ راستہ نکالتے ہیں۔‘
اِس استفسار پر کہ کیا صورتِ حال میں بہتری کی توقع کی جاسکتی ہے، ڈاکٹر رضوی نے کہا کہ تعلقات مکمل طور پر تو ٹھیک نہیں ہوسکیں گے۔ البتہ، بہت سے معاملات طے ہو جائیں گے۔ کچھ میں اختلاف قائم رہے گا۔ اِس لیے بھی تعلقات ابھی ٹھیک نہیں ہوں گے۔
وجہ بیان کرتے ہوئے، ڈاکٹر رضوی نے کہا کہ ’کیونکہ، امریکہ مخالف جذبات پاکستان میں اتنے سخت ہیں کہ ،میرا خیال نہیں ہے کہ، فوج یہ چاہے گی کہ پاکستان میں یہ تاثر ہو کہ پاکستانی فوج امریکہ نواز ہے۔ لہٰذا، وہ اپنا دباؤبرقرار رکھے گی۔ داخلی ضروریات کی وجہ سے بھی‘۔
یہ معلوم کرنے پر کہ حکومتِ پاکستان کا اِس میں کیا کردار ہوگا، ڈاکٹر رضوی کے بقول، پاکستانی حکومت کا بھی یہی رویہ ہوگا۔ جو فوج کی پالیسی ہے وہی پاکستانی سول حکومت کی پالیسی ہوگی۔‘
آڈیو رپورٹ سنیئے: