پاکستان اور امریکہ کے مابین وزارتی سطح کے اسٹریٹیجک مذاکرات پیر کو واشنگٹن میں ہو رہے ہیں جس میں سلامتی، انسداد دہشت گردی اور اقتصادی شعبوں سمیت مختلف امور پر بات چیت ہو گی۔
اس چھٹے اجلاس میں پاکستانی وفد کی قیادت وزیر اعظم نواز شریف کے مشیر برائے امور خارجہ سرتاج عزیز جب کہ امریکی وفد کی سربراہی وزیر خارجہ جان کیری کریں گے۔
ایک سرکاری بیان کے مطابق دونوں ملکوں کے درمیان ہونے والے مذاکرات میں اقتصادی، مالی اور توانائی کے شعبے میں تعاون، تعلیم، سائنس اور ٹیکنالوجی، انسداد دہشت گردی، سکیورٹی اور سلامتی کے امور شامل ہیں۔
پاکستان میں مبصرین کا ماننا ہے کہ یہ ایک اہم فورم ہے جو دونوں ملکوں کے درمیان مختلف معاملات پر باہمی تعاون پر پیش رفت کا جائزہ لینے کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے کو اپنے اپنے تحفظات سے آگاہ کرنے میں بھی بہت معاون ہے۔
پاکستان میں سینیئر تجزیہ کار حسن عسکری نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ بات چیت کے ایسے دور میں پاکستان دیگر امور کے ساتھ ساتھ سکیورٹی امور کے بارے میں امریکہ کو اپنے موقف سے آگاہ کر سکتا ہے اور دونوں ملکوں کو ایک دوسرے کے نقطہ نظر کو سمجھنے میں سہولت میسر آتی ہے۔
"کچھ چیزیں جہاں ترجیحات کے اندر (دونوں ملکوں کی) سوچ کے اندر فاصلے زیادہ ہیں ان کو کم کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن بنیادی طور پر (مختلف امور کے متعلق) سوچ کا تبادلہ کیا جاتا ہے پاکستان سکیورٹی کے معاملات کو کس نظر سے دیکھتا ہے اور امریکہ کس زاویے سے دیکھتا ہے اس میں ٹھوس معاملات بھی آ جاتے ہیں کہ اگر مثال کے طور پر پاکستان نے امریکہ سے کوئی چیز لینی دینی ہو، کوئی مطالبہ کرنا ہو تو اس کا تذکرہ بھی آ جاتا ہے تو یہ ایک اہم فورم ہے جس کے ذریعے تعلقات کو صحیح راستے پر سیدھا رکھا جا سکتا ہے۔
دونوں ملکوں کے درمیان اسٹریٹیجک مذاکرات کا سلسلہ 2010ء میں شروع ہوا تھا لیکن 2011ء میں پاکستان کے شہر ایبٹ آباد میں القاعدہ کے روپوش رہنما اسامہ بن لادن کے خلاف امریکی اسپیشل فورسز کے ایک خفیہ آپریشن کے بعد جہاں دوطرفہ تعلقات میں تناؤ آیا وہیں مذاکراتی عمل بھی تعطل کا شکار ہو گیا۔
بعد ازاں حالات تو معمول پر آنا شروع ہو گئے لیکن مذاکراتی سلسلہ 2014ء میں بحال ہوا اور گزشتہ سال کے اوائل میں اس کا پانچواں دور اسلام آباد میں منعقد ہوا تھا۔
2013ء میں نواز شریف کے وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد یہ تیسرے اسٹریٹیجک مذاکرات ہوں گے۔
پاکستان کے دفتر خارجہ کے بیان کے مطابق گزشتہ اکتوبر میں وزیراعظم کے دورہ امریکہ نے مذاکراتی عمل کو تیز اور ان کی راہ متعین کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
انسداد دہشت گردی کی جنگ میں پاکستان امریکہ کا قریبی اتحادی ہے اور دونوں ملکوں کے تعلقات میں اتار چڑھاؤ کے باوجود مختلف شعبوں میں تعاون اور معاونت کا سلسلہ جاری رہا ہے۔
یہ اجلاس ایک ایسے وقت ہو رہا ہے جو رواں ماہ ہی امریکہ نے پاکستان کو 70 کروڑ ڈالر مالیت کے آٹھ ایف سولہ طیارے اور دیگر جدید فوجی سازو سامان فروخت کرنے کی منظوری دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس سے دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی استعداد کار میں اضافہ ہو گا جو حکام کے بقول خود امریکی قومی سلامتی کے مفاد میں بھی ہے۔