پاکستان اور امریکہ ایک دفعہ پھر مذاکرات کی میز پر آرہے ہیں۔ واشنگٹن میں شروع ہونے والے اس اسٹریٹجک ڈائیلاگ کو دونوں ممالک کے درمیان وسیع اور معنی خیز تعلقات کا پیش خیمہ قرار دیا جارہا ہے۔دونوں ممالک میں اس ڈائیلاگ سے بہت سی امیدیں وابستہ ہیں ۔
پاکستان اور امریکہ کے درمیان اعلی سطحی اسٹریٹجک ڈائیلاگ کا باقاعدہ آغاز بدھ 24مارچ سے ہورہا ہے۔ اس ڈائیلاگ میں حصہ لینے کے لیے پاکستانی وفد امریکہ پہنچ چکا ہے۔
امریکہ روانگی سے قبل پاکستانی وزیر خارجہ نے ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ پاکستان شدت پسندی کے خلاف جنگ میں بہت قربانیاں دے چکا، اور اب مز ید کچھ کرنے کی بار ی امریکہ کی ہے۔بعد ازاں انہوں نے امریکہ سے سول نیوکلیر ڈیل اور 35 ارب ڈالر امداد کا بھی مطالبہ کیا۔
صدر اوباما کے افغانستان اور پاکستان کے لیے خصوصی نمائندے رچرڈ ہالبروک نے وائس آف امریکہ کے ایک سوال کے جواب میں پاکستانی وزیر خارجہ کے بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم پہلے ہی بہت کچھ کر رہے ہیں اور مزید بہت کچھ کرنا چاہتے ہیں۔اور ہم بہت کچھ کا اعلان بھی کرینگے۔لیکن چیک تو کانگریس کو ہی لکھنا ہوتا ہے۔
ہال بروک نے کہا کہ انتہائی اعلیٰ سطح کے اس ڈائیلاگ کے نتیجے میں نچلی سطح پر مختلف کمیٹیاں بنائی جائیں گی، جو کہ اعلانات اور منصوبوں پر پیش رفت کرنے کی ذمہ دار ہوں گی۔ اور چھ ماہ کے اندراندر دونوں ممالک کے اعلیٰ سطحی اہل کار پاکستان میں دوبارہ ملاقات کریں گے۔
رچرڈ ہالبروک نے کہا کہ یہ مکالمہ صرف سیکیورٹی تک ہی محدود نہیں ہے، بلکہ جمہوری اداروں کی مضبوطی، پانی و بجلی اور شدت پسندی سے نمٹنے کے بارے میں بھی بات ہوگی۔
مسٹر ہالبروک کا کہنا تھا کہ یہ ایک ایسی پارٹنرشپ ہے جو کہ سیکیورٹی کے معاملات سے بڑھ کر ہے۔ لیکن سیکیورٹی اسکا ایک اہم عنصر ہے۔ یہ ڈائیلاگ ہمارے آپس کے تعلقات کی مضبوطی کی علامت ہے جس سے باہمی اعتماد اور باہمی عزت ووقار کے ساتھ وسیع تر پارٹنر شپ کی راہ ہموار ہوگی۔
امریکہ میں پاکستان کی سابق سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی آجکل واشنگٹن کے ایک تھنک ٹینک وڈرو ولسن سینٹر میں سینیر ریسرچ فیلو کے طور پر کام کررہی ہیں۔ پاک امریکی اسٹریٹجک ڈائلاگ کے بارے میں انہوں نے کہا کہ پاکستان کی ترجیحات سے امریکی حکومت بہت اچھی طرح واقف ہے جس میں اولین ترجیح معیشت کی درستگی ہے۔ان کا کہناتھا کہ پاکستان ان مذاکرات میں شدت پسندی کے خلاف آپریشن میں کامیابی کے بعد آرہا ہے۔
اور مبصرین کا کہنا ہے کہ دونوں ملکوں کے پائیدار تعلقات کے لیے ضروری ہے کہ یہ موقع مذکرات برائے مذاکرات میں ضائع نہ ہو بلکہ اس ڈائیلاگ کے بعدوہ ٹھوس فیصلے سامنے آئیں جن سے پاکستان اور خطہ کا وسیع تر مفاد وابستہ ہے۔