قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خارجہ امور کے رکن رانا محمد افضل خان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ امریکہ کے اس خطے سے متعلق طویل المدت مفادات واضح نہیں اس لئے پاکستانی وفد کی کوشش انہیں جاننے کی ہوگی۔
اسلام آباد —
پاکستان اور امریکہ کے درمیان پیر کو اسٹریٹیجک مذاکرات واشگٹن میں شروع ہورہے ہیں جن میں قانون سازوں و مبصرین کا کہنا ہے کہ اقتصادی و تجارتی تعاون کو بھی ’’غیر معمولی‘‘ اہمیت دینی چاہیے۔
رواں سال کے اواخر میں افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلاء اور امریکہ کے افغان حکومت سے مجوزہ سلامتی کے معاہدے کے پیش نظر مبصرین اور بعض قانون ساز ان مذاکرات کو غیر معمولی اہمیت دے رہے ہیں۔
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خارجہ امور کے رکن رانا محمد افضل خان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ امریکہ کے اس خطے سے متعلق طویل المدت مفادات واضح نہیں اس لئے وزیراعظم کے مشیر برائے امور خارجہ اور قومی سلامتی سرتاج عزیز کی سربراہی میں پاکستانی وفد کی کوشش انہیں جاننے کی ہوگی۔ ان کا کہنا تھا کہ اس وقت دونوں ممالک میں تعاون ناگزیر ہے۔
’’آج امریکہ یہاں سے جا رہا ہے تو شاید آج اسے پاکستان کی زیادہ ضرورت ہو۔ اس علاقے کے لیے ہماری مشترکہ حکمت عملی ہے جس کی بنیاد ترقی اور ایک دوسرے کے حقوق کا احترام کرنے پر ہو۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ واشنگٹن پاکستان کے ’’تشخص‘‘ کو عالمی سطح پر بہتر کرنے میں بھی مدد کرے۔
’’ہمیں غیر ملکی سرمایہ کاری چاہئے۔ ہمیں بین الاقوامی فورمز پر سیاسی حمایت چاہیے اور پاکستان کے سافٹ ایمج کو تسلیم ہونا چاہیے ناکہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کے حوالے سے۔ امریکہ کے صدر کے ایک اچھے بیان سے بہت بڑی تبدیلی آسکتی ہے۔‘‘
مبصرین کا کہنا ہے کہ پاکستان اور امریکہ تعلقات میں تناؤ یا کسی قسم کا تعطل شدت پسند اور انتہا پسند عناصر کے لیے فائدہ مند جبکہ نا صرف خطے بلکہ عالمی امن کے لیے نقصان دہ ہوگا۔
پاکستانی سرکاری عہدیداروں کے مطابق خطے اور بالخصوص افغانستان اور پاکستان میں جاری شدت پسندی کے تناظر میں سلامتی کے امور کے علاوہ دونوں ملکوں کے مابین اقتصادی، توانائی، تجارتی، تعلیمی اور ثقافتی شعبوں میں تعاون بھی زیر بحث آئیں گے۔
نواز شریف حکومت کے مطابق اقتصادی ترقی ان کی اولین ترجیح ہے اور اعلیٰ عہدیدار کہہ چکے ہیں کہ یورپی یونین سے تجارتی مراعات حاصل کرنے کے بعد اسلام آباد کی کوشش ہوگی کہ امریکی منڈیوں تک پاکستانی مصنوعات کی آسان رسائی سے متعلق معاہدہ طے پا جائے۔
قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کی دوسری بڑی جماعت پاکستان تحریک انصاف کے قانون ساز اور قائمہ کمیٹی برائے تجارت کے سربراہ سراج محمد خان نے امریکہ سے تجارتی تعلقات بڑھانے کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ ’’ایسا نہیں کہ ہمیں 20 ارب ڈالر دے اور ہم ان کی لڑائی پر 100 ارب ڈالر لگا دیں۔ ہم دنیا کے بڑے کپاس پیدا کرنے والے ملکوں میں سے ہیں اور ہمارے پاس تمام سہولتیں ہیں۔ ہمیں بھی بنگلہ دیش کی طرح مراعات دیں تو ہم بھی وہاں مال بھیجیں۔‘‘
آل پاکستان ٹیکسٹائل اینڈ ملز ایسوسی ایشن کے سابق سینئر نائب صدر وصال منو کہتے ہیں کہ موجود ملکی معیشت کو دیکھتے ہوئے واشگٹن میں ہونے والے مذاکرات میں اقتصادی تعاون سر فہرست ہونا چاہئے۔
’’منڈیوں تک رسائی امریکہ کے لیے مسئلہ نہیں ہونا چاہئے کیونکہ ہم جو برآمد کریں گے وہ (امریکہ) پہلے ہی دنیا سے لے رہا ہے اور اس سے امریکہ کی معیشت اور صنعت پر بھی کوئی منفی اثر نہیں پڑے گا۔‘‘
رواں سال کے اواخر میں افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلاء اور امریکہ کے افغان حکومت سے مجوزہ سلامتی کے معاہدے کے پیش نظر مبصرین اور بعض قانون ساز ان مذاکرات کو غیر معمولی اہمیت دے رہے ہیں۔
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خارجہ امور کے رکن رانا محمد افضل خان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ امریکہ کے اس خطے سے متعلق طویل المدت مفادات واضح نہیں اس لئے وزیراعظم کے مشیر برائے امور خارجہ اور قومی سلامتی سرتاج عزیز کی سربراہی میں پاکستانی وفد کی کوشش انہیں جاننے کی ہوگی۔ ان کا کہنا تھا کہ اس وقت دونوں ممالک میں تعاون ناگزیر ہے۔
’’آج امریکہ یہاں سے جا رہا ہے تو شاید آج اسے پاکستان کی زیادہ ضرورت ہو۔ اس علاقے کے لیے ہماری مشترکہ حکمت عملی ہے جس کی بنیاد ترقی اور ایک دوسرے کے حقوق کا احترام کرنے پر ہو۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ واشنگٹن پاکستان کے ’’تشخص‘‘ کو عالمی سطح پر بہتر کرنے میں بھی مدد کرے۔
’’ہمیں غیر ملکی سرمایہ کاری چاہئے۔ ہمیں بین الاقوامی فورمز پر سیاسی حمایت چاہیے اور پاکستان کے سافٹ ایمج کو تسلیم ہونا چاہیے ناکہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کے حوالے سے۔ امریکہ کے صدر کے ایک اچھے بیان سے بہت بڑی تبدیلی آسکتی ہے۔‘‘
مبصرین کا کہنا ہے کہ پاکستان اور امریکہ تعلقات میں تناؤ یا کسی قسم کا تعطل شدت پسند اور انتہا پسند عناصر کے لیے فائدہ مند جبکہ نا صرف خطے بلکہ عالمی امن کے لیے نقصان دہ ہوگا۔
پاکستانی سرکاری عہدیداروں کے مطابق خطے اور بالخصوص افغانستان اور پاکستان میں جاری شدت پسندی کے تناظر میں سلامتی کے امور کے علاوہ دونوں ملکوں کے مابین اقتصادی، توانائی، تجارتی، تعلیمی اور ثقافتی شعبوں میں تعاون بھی زیر بحث آئیں گے۔
نواز شریف حکومت کے مطابق اقتصادی ترقی ان کی اولین ترجیح ہے اور اعلیٰ عہدیدار کہہ چکے ہیں کہ یورپی یونین سے تجارتی مراعات حاصل کرنے کے بعد اسلام آباد کی کوشش ہوگی کہ امریکی منڈیوں تک پاکستانی مصنوعات کی آسان رسائی سے متعلق معاہدہ طے پا جائے۔
قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کی دوسری بڑی جماعت پاکستان تحریک انصاف کے قانون ساز اور قائمہ کمیٹی برائے تجارت کے سربراہ سراج محمد خان نے امریکہ سے تجارتی تعلقات بڑھانے کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ ’’ایسا نہیں کہ ہمیں 20 ارب ڈالر دے اور ہم ان کی لڑائی پر 100 ارب ڈالر لگا دیں۔ ہم دنیا کے بڑے کپاس پیدا کرنے والے ملکوں میں سے ہیں اور ہمارے پاس تمام سہولتیں ہیں۔ ہمیں بھی بنگلہ دیش کی طرح مراعات دیں تو ہم بھی وہاں مال بھیجیں۔‘‘
آل پاکستان ٹیکسٹائل اینڈ ملز ایسوسی ایشن کے سابق سینئر نائب صدر وصال منو کہتے ہیں کہ موجود ملکی معیشت کو دیکھتے ہوئے واشگٹن میں ہونے والے مذاکرات میں اقتصادی تعاون سر فہرست ہونا چاہئے۔
’’منڈیوں تک رسائی امریکہ کے لیے مسئلہ نہیں ہونا چاہئے کیونکہ ہم جو برآمد کریں گے وہ (امریکہ) پہلے ہی دنیا سے لے رہا ہے اور اس سے امریکہ کی معیشت اور صنعت پر بھی کوئی منفی اثر نہیں پڑے گا۔‘‘