پاکستان میں تعینات امریکی سفارت کار کرنل جوزف کو حکام کی طرف سے ’بلیک لسٹ‘ میں ڈال دیا گیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ بغیر اجازت کے فی الحال ملک نہیں چھوڑ سکتے۔
سات اپریل کو امریکی سفارت خانے میں تعینات دفاعی اتاشی کرنل جوزف ایمانیوئل کی گاڑی کی ٹکر سے اسلام آباد میں ایک پاکستانی نوجوان عتیق بیگ ہلاک جب کہ اُن کے ساتھ موٹر سائیکل پر سوار راحیل زخمی ہو گئے تھے۔
پولیس کی طرف سے سفارت کار کا نام ’ای سی ایل‘ یعنی اُن افراد کی فہرست میں شامل کرنے درخواست کی گئی جن پر ملک سے باہر جانے پر پابندی ہوتی ہے، لیکن سابق سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ ایسا ممکن نہیں کیوں کہ پاکستان ویانا کنونشن کے تحت سفارت کاروں کو کسی طرح کی قانونی چارہ جوئی سے استثنٰی دینے پر مجبور ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
انسٹی ٹیوٹ آف سٹرایٹیجک سٹیڈیز کے شعبہ امریکہ کے ڈائریکٹر نجم رفیق نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ امریکی سفارت کار کا نام بلیک لسٹ ڈالنا پاکستان کی طرف سے ایک سخت اقدام ہے۔ یہ ’’امریکہ کو ایک پیغام ہے کہ پاکستان اپنی طرف سے ہر حد تک جا سکتا ہے۔۔۔۔ بظاہر پاکستان نے اُن کو ای سی ایل پر نہیں ڈالا، جو کہ ایک نا ممکن سی بات ہے کیوں کہ سفارتکاروں کو سفارتی استثنٰی حاصل ہوتا ہے۔‘‘
امریکی سفارت کار کا نام ’بلیک لسٹ‘ میں ڈالنے سے متعلق فیصلہ امریکہ کے محکمہ خارجہ کی سینیئر عہدیدار برائے جنوبی و وسط ایشیائی امور سفیر ایلس ویلز کے دورہ اسلام آباد کے محض کچھ گھنٹوں بعد ہی سامنے آیا۔
رواں ماہ کے دوران ایلس ویلز کا پاکستان کا یہ دوسرا دورہ تھا اور اس سے قبل اُنھوں نے اپریل کے پہلے ہفتے میں پاکستان کا سات روزہ دورہ مکمل کیا تھا۔
پاکستان کی طرف سے اس دورے کے بارے میں کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا جب کہ امریکی سفارت خانے سے پیر کی شب جاری ایک مختصر بیان میں کہا گیا کہ ایلس ویلز نے پاکستان کی سیکریٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ اور دیگر سینئر سرکاری حکام سے ملاقاتیں کیں جن میں امریکہ کی جنوبی ایشیا کے بارے میں حکمت عملی اور علاقائی سلامتی اور استحکام کی غرض سے کی جانے والی کوششوں میں پیش رفت کی صورتحال پر بات چیت کی گئی۔
نجم رفیق کہتے ہیں کہ دونوں ممالک کے درمیان رابطے تو جاری ہیں لیکن ’’میں سمجھتا ہوں کہ پاک امریکہ تعلقات جو سرد مہری کا شکار ہیں وہ مزید سرد مہری کی طرف جا رہے ہیں اور اُن میں ابھی کوئی بہتری نہیں آئی ہے۔‘‘
تاہم اُن کا کہنا تھا کہ مذاکرات بھی تعلقات میں بہتری کی ایک کوشش ہیں اور بات چیت کا جاری رہنا بھی ایک مثبت اقدام ہے۔
واضح رہے کہ امریکہ میں تعینات پاکستانی سفاتکاروں کی نقل و حرکت یکم مئی سے ایک مخصوص حد تک محدود کی جا رہی ہے اور امریکہ نے یہ پابندی پاکستان کی جانب سے امریکی سفارت کاروں کی بلا اجازت نقل و حرکت پر عائد پابندی کے جواب میں لگائی ہے۔
اس پیش رفت کو بھی دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تناؤ میں اضافے سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔