ملک میں سکیورٹی خدشات اور دیگر معاشرتی مسائل کے تناظر میں مختلف افراد کا کہنا تھا کہ ایسے دن انہیں کچھ وقت کے لیے الجھنوں سے دور لے جانے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔
اسلام آباد —
دنیا بھر کی طرح جمعرات کو پاکستان میں بھی ویلنٹائنز ڈے منایا گیا اور اس حوالے سے بڑے شہروں میں خاصی گہما گہمی دیکھنے میں آئی۔
اس موقع پر پھول بیچنے والوں اور تحائف کی دکانوں میں رش دیکھنے میں آیا۔ وفاقی دارالحکومت کے مختلف بازاروں میں ویلنٹائن ڈے کی خریداری کرنے والوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ملک میں امن و امان کی خراب صورتحال اور دیگر معاشرتی الجھنوں کے تناظر میں اس دن کو ایک خوشگوار موقع قرار دیا جب کہ بعض لوگوں کے نزدیک یہ دن کسی خاص اہمیت کا حامل نہیں۔
ہر سال 14 فروری کو اظہار محبت یا ویلنٹائنز ڈے کے موقع پر لوگ اپنے چاہنے والوں کو پھول، چاکلیٹس اور دیگر تحائف پیش کرتے ہیں۔ اسلام آباد کے ایک مصروف بازار میں پھول خریدنے والوں میں فہد سکندر بھی شامل تھے۔
انھوں نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایک ہی پیغام دینا چاہتے ہیں کہ اس دن کو کسی نا کسی طور ضرور منائیں۔’’ ہمیں بہانا ڈھونڈنا چاہیے کہ بیشک 14 فروری ہو یا جو بھی ہو کسی نہ کسی طریقے سے اسے خاص بنائیں اور اپنے چاہنے والوں کو بتائیں کہ آپ ان کے بارے میں کیسا محسوس کرتے ہیں کتنا خیال ہے آپ کو ان کا ۔‘‘
وقاص وحید کی حال ہی میں شادی ہوئی ہے اور وہ اپنی اہلیہ کے ساتھ پھول خریدنے میں مصروف ہیں ان کا کہنا تھا کہ ویلنٹائنز ڈے پر ہر طرف پیار کی فضا ہوتی ہے۔
’’اپنی بیوی کے لئے کوئی اچھی سی چیز کوئی پھول کوئی تحفہ لینے آئے ہیں، ویسے تو ہر دن ہوتا ہے پیار کا تو ہمیں چاہیے کہ روز اظہار کریں پیار کا لیکن آج تھوڑا زیادہ کر لیں۔‘‘
انھوں نے کہا کہ ’’مجھے مذہبی حیثیت نہیں پتا کہ یہ اچھی بات ہے یا بری بات ہے لیکن پیار کرنا پیار کا اظہار کرنا کوئی بری بات نہیں ہے‘‘۔
اسلابام آباد کی سپرمارکیٹ میں پھول فروش محمد اصغر نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ویلنٹائنز ڈے پر پھولوں کی مانگ میں کئی گنا اضافہ ہوجاتا ہے جب کہ پھول فروش اس دن سے قبل ہی بڑی مقدار میں پھول ذخیرہ کرلیتے ہیں۔
’’لوگوں کے اسٹاک کرنے کی وجہ سے طلب زیادہ اور رسد کم ہونے سے ویلنٹائنز ڈے پر پھول مہنگے ہو جاتے ہیں۔‘‘
پاکستان میں ویلنٹائنز ڈے پر لوگوں نے جہاں محبت کے اظہار کے لئے پیار اور تحائف کا تبادلہ کیا وہاں کچھ لوگوں نے اس کی مخالفت بھی کی اور بعض شہروں میں کچھ مقامات پر اس کے خلاف بینرز بھی لگے نظر آئے۔
ایک خاتون ثنا کا کہنا تھا کہ ’’اگر کوئی موقع آیا ہے اور لوگوں کا دل کرتا ہے کہ وہ اسے منائیں تو ضرور منائیں، جس کا نہیں دل کرتا وہ نا کرے لیکن کسی پر کچھ تھونپنا نہیں چاہیے، جہاں ہم نے اور چیزیں مغرب سے لی ہیں وہاں یہ بھی صحیح لیکن اپنی ثقافت کے حساب سے حد میں رہتے ہوئے۔‘‘
پاکستان کو حالیہ برسوں میں جہاں بدترین دہشت گردی کا سامنا رہا وہیں اقتصادی مشکلات بھی عام لوگوں کی دشواریوں میں اضافے کا سبب بنیں۔ اس تناظر میں بعض لوگوں کا کہنا تھا کہ ویلنٹائنز ڈے جیسے دن انھیں کچھ وقت کے لئے ان پریشانیوں سے دور لے جانے کا سبب بنتے ہیں۔
اسی اثناء میں پاکستان میں الیکٹرانک میڈیا کے نگران ادارے ’پیمرا‘ نے ٹی وی اور ریڈیو چینلنز کے لیے جاری کردہ بیان میں ہدایت کی ہے کہ وہ ویلنٹائنز ڈے کے حوالے سے اپنے پروگرامز اور نشریات میں اس بات کو ملحوظ خاطر رکھیں کہ اس سے کسی کی مذہبی جذبات یا معاشرتی اقدار متاثر نہ ہوں۔
اس موقع پر پھول بیچنے والوں اور تحائف کی دکانوں میں رش دیکھنے میں آیا۔ وفاقی دارالحکومت کے مختلف بازاروں میں ویلنٹائن ڈے کی خریداری کرنے والوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ملک میں امن و امان کی خراب صورتحال اور دیگر معاشرتی الجھنوں کے تناظر میں اس دن کو ایک خوشگوار موقع قرار دیا جب کہ بعض لوگوں کے نزدیک یہ دن کسی خاص اہمیت کا حامل نہیں۔
ہر سال 14 فروری کو اظہار محبت یا ویلنٹائنز ڈے کے موقع پر لوگ اپنے چاہنے والوں کو پھول، چاکلیٹس اور دیگر تحائف پیش کرتے ہیں۔ اسلام آباد کے ایک مصروف بازار میں پھول خریدنے والوں میں فہد سکندر بھی شامل تھے۔
انھوں نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایک ہی پیغام دینا چاہتے ہیں کہ اس دن کو کسی نا کسی طور ضرور منائیں۔’’ ہمیں بہانا ڈھونڈنا چاہیے کہ بیشک 14 فروری ہو یا جو بھی ہو کسی نہ کسی طریقے سے اسے خاص بنائیں اور اپنے چاہنے والوں کو بتائیں کہ آپ ان کے بارے میں کیسا محسوس کرتے ہیں کتنا خیال ہے آپ کو ان کا ۔‘‘
وقاص وحید کی حال ہی میں شادی ہوئی ہے اور وہ اپنی اہلیہ کے ساتھ پھول خریدنے میں مصروف ہیں ان کا کہنا تھا کہ ویلنٹائنز ڈے پر ہر طرف پیار کی فضا ہوتی ہے۔
’’اپنی بیوی کے لئے کوئی اچھی سی چیز کوئی پھول کوئی تحفہ لینے آئے ہیں، ویسے تو ہر دن ہوتا ہے پیار کا تو ہمیں چاہیے کہ روز اظہار کریں پیار کا لیکن آج تھوڑا زیادہ کر لیں۔‘‘
انھوں نے کہا کہ ’’مجھے مذہبی حیثیت نہیں پتا کہ یہ اچھی بات ہے یا بری بات ہے لیکن پیار کرنا پیار کا اظہار کرنا کوئی بری بات نہیں ہے‘‘۔
اسلابام آباد کی سپرمارکیٹ میں پھول فروش محمد اصغر نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ویلنٹائنز ڈے پر پھولوں کی مانگ میں کئی گنا اضافہ ہوجاتا ہے جب کہ پھول فروش اس دن سے قبل ہی بڑی مقدار میں پھول ذخیرہ کرلیتے ہیں۔
’’لوگوں کے اسٹاک کرنے کی وجہ سے طلب زیادہ اور رسد کم ہونے سے ویلنٹائنز ڈے پر پھول مہنگے ہو جاتے ہیں۔‘‘
پاکستان میں ویلنٹائنز ڈے پر لوگوں نے جہاں محبت کے اظہار کے لئے پیار اور تحائف کا تبادلہ کیا وہاں کچھ لوگوں نے اس کی مخالفت بھی کی اور بعض شہروں میں کچھ مقامات پر اس کے خلاف بینرز بھی لگے نظر آئے۔
ایک خاتون ثنا کا کہنا تھا کہ ’’اگر کوئی موقع آیا ہے اور لوگوں کا دل کرتا ہے کہ وہ اسے منائیں تو ضرور منائیں، جس کا نہیں دل کرتا وہ نا کرے لیکن کسی پر کچھ تھونپنا نہیں چاہیے، جہاں ہم نے اور چیزیں مغرب سے لی ہیں وہاں یہ بھی صحیح لیکن اپنی ثقافت کے حساب سے حد میں رہتے ہوئے۔‘‘
پاکستان کو حالیہ برسوں میں جہاں بدترین دہشت گردی کا سامنا رہا وہیں اقتصادی مشکلات بھی عام لوگوں کی دشواریوں میں اضافے کا سبب بنیں۔ اس تناظر میں بعض لوگوں کا کہنا تھا کہ ویلنٹائنز ڈے جیسے دن انھیں کچھ وقت کے لئے ان پریشانیوں سے دور لے جانے کا سبب بنتے ہیں۔
اسی اثناء میں پاکستان میں الیکٹرانک میڈیا کے نگران ادارے ’پیمرا‘ نے ٹی وی اور ریڈیو چینلنز کے لیے جاری کردہ بیان میں ہدایت کی ہے کہ وہ ویلنٹائنز ڈے کے حوالے سے اپنے پروگرامز اور نشریات میں اس بات کو ملحوظ خاطر رکھیں کہ اس سے کسی کی مذہبی جذبات یا معاشرتی اقدار متاثر نہ ہوں۔