خواتین کے حقوق کی ایک سرکردہ غیر سرکاری تنظیم ’عورت فاؤنڈیشن‘ کے اعداد وشمار کے مطابق گزشتہ ایک سال کے عرصے میں عورتوں پر تشدد کے واقعات میں سات فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
اسلام آباد —
دنیا بھر میں 25 نومبر بروز اتوار خواتین پر تشدد کے خاتمے کا عالمی دن منایا گیا جس کا مقصد صنف نازک پر ہونے والی ظلم و زیادتی کے خلاف آواز بلند کرنا اور تشدد کے خاتمے کی کوششوں کی حوصلہ افزائی کرنا ہے۔
پاکستان میں خواتین پر تشدد کی حوصلہ شکنی کے لیے متعدد قانون وضع کیے گئے ہیں تاہم ناقدین کا کہنا ہے کہ قوانین پر مؤثر عملدرآمد نہ ہونے کے باعث اس ضمن میں خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہوسکی ہے۔
ملک میں خواتین کے حقوق کی ایک سرکردہ غیر سرکاری تنظیم ’عورت فاؤنڈیشن‘ کے اعداد وشمار کے مطابق گزشتہ ایک سال کے عرصے میں عورتوں پر تشدد کے واقعات میں سات فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
تنظیم کے مطابق ہر سال ہزاروں خواتین تشدد، اغوا، آبروریزی اور غیرت کے نام پر قتل کا شکار ہوتی ہیں اورعورت فاؤنڈیشن کے بقول بنیادی مسائل، انصاف کا غیر مؤثر نظام اور قدیم معاشی اقدار کی وجہ سے خواتین کے خلاف تشدد کے واقعات پر قابو نہیں پایا جاسکاہے۔
تنظیم کی رپورٹ کے مطابق سال 2011ء میں پاکستان میں خواتین پر تشدد کے 8539 کیس رجسٹر ہوئے۔
پاکستان میں اب بھی بعض دوردراز علاقوں میں خواتین کو خاندانی غیر ت کے نام پر قتل کرنے اور قبائلی یا خاندانی جھگڑوں کے تصفیے کے لیے نوجوان لڑکیوں کو ونی کرنے کے واقعات منظر عام پر آتے رہتے ہیں۔ لیکن ناقدین اعتراف کرتے ہیں کہ حالیہ برسوں میں سرکاری سطح پر قانون سازی، سول سوسائٹی کی تنظیموں اور مقامی میڈیا کے ذریعےجس شدت کے ساتھ کارو کاری اور ونی جیسی غیر قانونی رسومات کے خلاف مہم چلائی گئی ہے اس کی بدولت ایسے واقعات میں نمایاں کمی ہوئی۔
البتہ خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم عمل تنظیموں کا کہنا ہے کہ قانون سازوں اور حکمرانوں کو خواتین کے خلاف گھریلو تشدد کی حوصلہ شکنی کے لیے بھی مہم تیز کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ ان واقعات میں2011ء کے دوران سات فیصد اضافہ ہوا ہے۔
حکمران پیپلز پارٹی نے 2009ء میں قومی اسمبلی سے خواتین کے خلاف گھریلو تشدد کے خاتمے کے لیے ایک بل منظور کروایا تھا مگر مقررہ آئینی مدت میں اس بل کو ایوان بالا یعنی سینیٹ میں پیش نہیں کیا جاسکا جس کی وجہ سے قانون سازی کی یہ کوشش ناکام ہوگئی۔
سیاسی جماعتوں کا کہنا ہے کہ پارلیمان کی بعض مذہبی جماعتوں کی طرف سے اس بل کی مخالفت کے باعث اس پر مزید پیش رفت نا ہو سکی کیونکہ ان کے خیال میں یہ قانون سازی مغربی ملکوں کے دباؤ میں کی جارہی ہے۔ تب سے آج تک یہ معاملہ التوا کا شکار ہے۔
ادھر اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے خواتین پر تشدد کے خاتمے کے عالمی دن کے موقع پر اپنے پیغام میں کہا ہے کہ ایسی بنیادی اقدار کو جھٹلانے کی ضرورت ہے جو خواتین پر تشدد کو جاری رکھنے کی اجازت دیتی ہیں۔
ایک بیان میں سیکرٹری جنرل نے حکومتوں پر زور دیا کہ وہ خواتین اور بچیوں کے خلاف تشدد کے خاتمے لیے اپنے عزم کو پورا کریں اور لوگوں سے مطالبہ کیا کہ وہ اس اہم مقصد کی حمایت کریں۔
پاکستان میں خواتین پر تشدد کی حوصلہ شکنی کے لیے متعدد قانون وضع کیے گئے ہیں تاہم ناقدین کا کہنا ہے کہ قوانین پر مؤثر عملدرآمد نہ ہونے کے باعث اس ضمن میں خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہوسکی ہے۔
ملک میں خواتین کے حقوق کی ایک سرکردہ غیر سرکاری تنظیم ’عورت فاؤنڈیشن‘ کے اعداد وشمار کے مطابق گزشتہ ایک سال کے عرصے میں عورتوں پر تشدد کے واقعات میں سات فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
تنظیم کے مطابق ہر سال ہزاروں خواتین تشدد، اغوا، آبروریزی اور غیرت کے نام پر قتل کا شکار ہوتی ہیں اورعورت فاؤنڈیشن کے بقول بنیادی مسائل، انصاف کا غیر مؤثر نظام اور قدیم معاشی اقدار کی وجہ سے خواتین کے خلاف تشدد کے واقعات پر قابو نہیں پایا جاسکاہے۔
تنظیم کی رپورٹ کے مطابق سال 2011ء میں پاکستان میں خواتین پر تشدد کے 8539 کیس رجسٹر ہوئے۔
پاکستان میں اب بھی بعض دوردراز علاقوں میں خواتین کو خاندانی غیر ت کے نام پر قتل کرنے اور قبائلی یا خاندانی جھگڑوں کے تصفیے کے لیے نوجوان لڑکیوں کو ونی کرنے کے واقعات منظر عام پر آتے رہتے ہیں۔ لیکن ناقدین اعتراف کرتے ہیں کہ حالیہ برسوں میں سرکاری سطح پر قانون سازی، سول سوسائٹی کی تنظیموں اور مقامی میڈیا کے ذریعےجس شدت کے ساتھ کارو کاری اور ونی جیسی غیر قانونی رسومات کے خلاف مہم چلائی گئی ہے اس کی بدولت ایسے واقعات میں نمایاں کمی ہوئی۔
البتہ خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم عمل تنظیموں کا کہنا ہے کہ قانون سازوں اور حکمرانوں کو خواتین کے خلاف گھریلو تشدد کی حوصلہ شکنی کے لیے بھی مہم تیز کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ ان واقعات میں2011ء کے دوران سات فیصد اضافہ ہوا ہے۔
حکمران پیپلز پارٹی نے 2009ء میں قومی اسمبلی سے خواتین کے خلاف گھریلو تشدد کے خاتمے کے لیے ایک بل منظور کروایا تھا مگر مقررہ آئینی مدت میں اس بل کو ایوان بالا یعنی سینیٹ میں پیش نہیں کیا جاسکا جس کی وجہ سے قانون سازی کی یہ کوشش ناکام ہوگئی۔
سیاسی جماعتوں کا کہنا ہے کہ پارلیمان کی بعض مذہبی جماعتوں کی طرف سے اس بل کی مخالفت کے باعث اس پر مزید پیش رفت نا ہو سکی کیونکہ ان کے خیال میں یہ قانون سازی مغربی ملکوں کے دباؤ میں کی جارہی ہے۔ تب سے آج تک یہ معاملہ التوا کا شکار ہے۔
ادھر اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے خواتین پر تشدد کے خاتمے کے عالمی دن کے موقع پر اپنے پیغام میں کہا ہے کہ ایسی بنیادی اقدار کو جھٹلانے کی ضرورت ہے جو خواتین پر تشدد کو جاری رکھنے کی اجازت دیتی ہیں۔
ایک بیان میں سیکرٹری جنرل نے حکومتوں پر زور دیا کہ وہ خواتین اور بچیوں کے خلاف تشدد کے خاتمے لیے اپنے عزم کو پورا کریں اور لوگوں سے مطالبہ کیا کہ وہ اس اہم مقصد کی حمایت کریں۔