خیبر پختون خوا میں شدت پسندوں کی کارروائیوں میں تیزی 15 دسمبر کو پشاور ائرپورٹ پرراکٹ اور خود کش حملوں سے شروع ہوئی
اسلام آباد —
خیبر پختون خوا میں رواں ماہ طالبان شدت پسندوں کی پرتشدد مہم میں تیزی آنے کے بعد بالخصوص پاکستان کے اس شمال مغربی صوبے میں آئندہ عام انتخابات کے انعقاد کے بارے میں خدشات بڑھ گئے ہیں۔
دہشت گردی کی کارروائیوں میں گزشتہ ایک ہفتے کے دوران خیبر پختون خوا میں چالیس سے زائد افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں، جبکہ اسی عرصے میں ملک کے دیگر حصوں بشمول کراچی میں سیاسی و لسانی بنیادوں پرحملوں کا سلسلہ بھی جاری رہا جن میں تیس سے زائد لوگ قتل ہوئے۔
پشاور میں 22 دسمبر کو عوامی نیشنل پارٹی کے ایک مرکزی رہنما اور سینیئر صوبائی وزیر بشیر احمد بلور کی خود کش بم دھماکے میں آٹھ دیگر افراد سمیت ہلاکت کے بعد حکام کی طرف سے سیاسی جماعتوں کو عوامی سرگرمیاں محدود کیے جانے کا مشورہ دیا گیا ہے جس سے غیر جانبدار مبصرین کے خیال میں آئندہ انتخابات کی ساکھ متاثر ہوگی۔
خیبر پختون خوا میں شدت پسندوں کی کارروائیوں میں تیزی 15 دسمبر کو پشاور ائرپورٹ پرراکٹ اور خود کش حملوں سے شروع ہوئی جس کے بعد صوبے سے متصل خیبر ایجنسی کے جمرود قصبے میں ایک کار بم دھماکے میں 21 لوگ ہلاک ہوگئے۔
امریکہ میں قائم نیشنل ڈیموکریٹک انسٹیٹیوٹ یا این ڈی آئی نے گزشتہ ہفتہ پاکستان میں قبل ازانتخابات کی صورت حال پر جاری کردہ اپنی رپورٹ میں اس امرپر تشویش کا اظہار کیا تھا کہ ملک میں سیاسی تشدد کی سطح ماضی کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے اور اس میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
رپورٹ کے مطابق ملک میں طویل عرصے سے ’’شورش زدہ حصے‘‘ موجود ہیں جو انتخابات کے دنوں میں بعض سیاسی جماعتوں کے لیے’’نو گو ایریا‘‘ تصور کیے جاتے ہیں۔
’’آج ملک کے بہت زیادہ حصے کھلے عام سیاسی سرگرمی کے لیے انتہائی غیر محفوظ سمجھے جاتے ہیں۔ بلوچستان، وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقے ( فاٹا) اور خیبر پختون خوا سیاسی تشدد سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔‘‘
لیکن این ڈی آئی نے کہا ہے کہ امن وامان کی خراب صورت حال کے باوجود پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں اور الیکشن کمیشن انتخابات کے انعقاد کے بارے میں پرامید ہیں۔
تنظیم نے خاص طور پر ساڑھے آٹھ کروڑ اہل رائے دہندگان کی نئی اور مستند قومی فہرست کو سراہا ہے جو ماضی کے مقابلے میں آئندہ انتخابات کو منفرد بنانے میں کلیدی حیثیت رکھتی ہے۔
این ڈی آئی نے امید ظاہر کی ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان آئندہ انتخابات میں خواتین کو ووٹ ڈالنے کے حق سے محروم رکھنے کی کوششوں کی حوصلہ شکنی کے لیے بھی ٹھوس اقدامات کرے گا۔
دہشت گردی کی کارروائیوں میں گزشتہ ایک ہفتے کے دوران خیبر پختون خوا میں چالیس سے زائد افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں، جبکہ اسی عرصے میں ملک کے دیگر حصوں بشمول کراچی میں سیاسی و لسانی بنیادوں پرحملوں کا سلسلہ بھی جاری رہا جن میں تیس سے زائد لوگ قتل ہوئے۔
پشاور میں 22 دسمبر کو عوامی نیشنل پارٹی کے ایک مرکزی رہنما اور سینیئر صوبائی وزیر بشیر احمد بلور کی خود کش بم دھماکے میں آٹھ دیگر افراد سمیت ہلاکت کے بعد حکام کی طرف سے سیاسی جماعتوں کو عوامی سرگرمیاں محدود کیے جانے کا مشورہ دیا گیا ہے جس سے غیر جانبدار مبصرین کے خیال میں آئندہ انتخابات کی ساکھ متاثر ہوگی۔
خیبر پختون خوا میں شدت پسندوں کی کارروائیوں میں تیزی 15 دسمبر کو پشاور ائرپورٹ پرراکٹ اور خود کش حملوں سے شروع ہوئی جس کے بعد صوبے سے متصل خیبر ایجنسی کے جمرود قصبے میں ایک کار بم دھماکے میں 21 لوگ ہلاک ہوگئے۔
رپورٹ کے مطابق ملک میں طویل عرصے سے ’’شورش زدہ حصے‘‘ موجود ہیں جو انتخابات کے دنوں میں بعض سیاسی جماعتوں کے لیے’’نو گو ایریا‘‘ تصور کیے جاتے ہیں۔
’’آج ملک کے بہت زیادہ حصے کھلے عام سیاسی سرگرمی کے لیے انتہائی غیر محفوظ سمجھے جاتے ہیں۔ بلوچستان، وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقے ( فاٹا) اور خیبر پختون خوا سیاسی تشدد سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔‘‘
لیکن این ڈی آئی نے کہا ہے کہ امن وامان کی خراب صورت حال کے باوجود پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں اور الیکشن کمیشن انتخابات کے انعقاد کے بارے میں پرامید ہیں۔
تنظیم نے خاص طور پر ساڑھے آٹھ کروڑ اہل رائے دہندگان کی نئی اور مستند قومی فہرست کو سراہا ہے جو ماضی کے مقابلے میں آئندہ انتخابات کو منفرد بنانے میں کلیدی حیثیت رکھتی ہے۔
این ڈی آئی نے امید ظاہر کی ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان آئندہ انتخابات میں خواتین کو ووٹ ڈالنے کے حق سے محروم رکھنے کی کوششوں کی حوصلہ شکنی کے لیے بھی ٹھوس اقدامات کرے گا۔