ایک غیر سرکاری تنظیم کی چھ خواتین اہلکار اسکول میں پڑھانے کے بعد واپس گھر جارہی تھیں کہ انھیں نامعلوم مسلح افراد نے گولیوں سے نشانہ بنایا
پشاور —
پاکستان کے شمال مغربی صوبہ خیبر پختونخواہ میں ایک غیر سرکاری تنظیم کی گاڑی پر نا معلوم افراد کی فائرنگ سے چھ خواتین سمیت سات افراد ہلاک ہو گئے۔
حکام اور عینی شاہدین نے بتایا کہ غیر سرکاری تنظیم کے اہلکاروں پر نامعلوم موٹر سائیکل سوار حملہ آوروں نے منگل کی سہ پہر اس وقت فائرنگ کی جب وہ صوابی کے گاؤں شیرا اسلم کلی سے واپس گھروں کو جا رہے تھے۔
حملہ آوروں کی فائرنگ سے چھ خواتین اور ایک مرد موقع پر ہلاک اور ایک زخمی ہو گیا۔
مقامی لوگوں اور پولیس اہلکاروں نے جائے وقوع پر پہنچ کر ہلاک اور زخمی ہونے والوں کو قریبی اسپتال منتقل کر دیا۔ ہلاک اور زخمی ہونے والوں کا تعلق صوابی ہی کی ایک غیر سرکاری تنظیم سے تھا۔
اجالا نامی غیر سرکاری تنظیم کے سربراہ عابد خان نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ان کے ادارے کے زیر انتظام تعلیم اور صحت کے مراکز قائم ہیں اور ہلاک ہونے والی خواتین ایک اسکول میں پڑھانے کے بعد واپس اہنے گھروں کو جارہی تھیں کہ انھیں اسکول کے قریب ہی نشانہ بنایا گیا۔
’’ہمارا ایجوکیشن کا ایک یونٹ ہے تو اس میں یہ ٹیچرز ہیں تقریباً یہ نو بجے ڈیوٹی پر جاتی ہیں اور اڑھائی بجے تقریباً چھٹی ہوتی ہے۔ تو یہ جب اسکول سے نکل گئے اڑھائی بجے تو یہ واقعہ راستے میں ان کو پیش آیا ‘‘۔
صوبائی وزیر اطلاعات میاں افتخار حسین نے کہا کہ ایسے حملوں کا مقصد فلاحی کاموں میں مصروف رضاکاروں میں خوف و ہراس پھیلانا ہے۔
’’یعنی جو رضاکار لوگ ہیں ان کوبھی ڈرایا جائے، جو سرکاری ملازمین ہیں ان کو ڈرایا جائے جو عوام ہیں ان کو بھی ڈرایا جائے یعنی دہشت گردی کا کوئی بھی واقعہ ہو یہ بھی اسی نوعیت کا واقعہ ہے‘‘۔
صوبہ خیبر پختون خواہ کا مختلف علاقوں میں حال ہی میں انسداد پولیو کی مہم می شامل خواتین ان رضاکاروں کو بھی نشانہ بنایا گیا جس کی نہ صرف اندرون ملک بلکہ عالمی سطح پر بھی مذمت کی گئی ہے۔
صوابی کا شمار خیبر پختون خواہ کے نسبتاً پر امن اضلاع میں ہوتا ہے۔ تاہم دریائے سندھ کے کنارے واقع اس علاقے میں دہشت گردی اور تشدد کے واقعات گزشتہ کئی سالوں سے ہوتے رہے ہیں۔
تقریباً ڈیڑھ سال قبل اس علاقے میں جمعیت علما اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کے قافلے پر ایک خود کش حملہ ہوا تھا جس میں ایک درجن کے لگ بھگ لوگ ہلاک اور بیس زخمی ہوئے تھے۔
حکام اور عینی شاہدین نے بتایا کہ غیر سرکاری تنظیم کے اہلکاروں پر نامعلوم موٹر سائیکل سوار حملہ آوروں نے منگل کی سہ پہر اس وقت فائرنگ کی جب وہ صوابی کے گاؤں شیرا اسلم کلی سے واپس گھروں کو جا رہے تھے۔
حملہ آوروں کی فائرنگ سے چھ خواتین اور ایک مرد موقع پر ہلاک اور ایک زخمی ہو گیا۔
مقامی لوگوں اور پولیس اہلکاروں نے جائے وقوع پر پہنچ کر ہلاک اور زخمی ہونے والوں کو قریبی اسپتال منتقل کر دیا۔ ہلاک اور زخمی ہونے والوں کا تعلق صوابی ہی کی ایک غیر سرکاری تنظیم سے تھا۔
اجالا نامی غیر سرکاری تنظیم کے سربراہ عابد خان نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ان کے ادارے کے زیر انتظام تعلیم اور صحت کے مراکز قائم ہیں اور ہلاک ہونے والی خواتین ایک اسکول میں پڑھانے کے بعد واپس اہنے گھروں کو جارہی تھیں کہ انھیں اسکول کے قریب ہی نشانہ بنایا گیا۔
’’ہمارا ایجوکیشن کا ایک یونٹ ہے تو اس میں یہ ٹیچرز ہیں تقریباً یہ نو بجے ڈیوٹی پر جاتی ہیں اور اڑھائی بجے تقریباً چھٹی ہوتی ہے۔ تو یہ جب اسکول سے نکل گئے اڑھائی بجے تو یہ واقعہ راستے میں ان کو پیش آیا ‘‘۔
صوبائی وزیر اطلاعات میاں افتخار حسین نے کہا کہ ایسے حملوں کا مقصد فلاحی کاموں میں مصروف رضاکاروں میں خوف و ہراس پھیلانا ہے۔
’’یعنی جو رضاکار لوگ ہیں ان کوبھی ڈرایا جائے، جو سرکاری ملازمین ہیں ان کو ڈرایا جائے جو عوام ہیں ان کو بھی ڈرایا جائے یعنی دہشت گردی کا کوئی بھی واقعہ ہو یہ بھی اسی نوعیت کا واقعہ ہے‘‘۔
صوبہ خیبر پختون خواہ کا مختلف علاقوں میں حال ہی میں انسداد پولیو کی مہم می شامل خواتین ان رضاکاروں کو بھی نشانہ بنایا گیا جس کی نہ صرف اندرون ملک بلکہ عالمی سطح پر بھی مذمت کی گئی ہے۔
صوابی کا شمار خیبر پختون خواہ کے نسبتاً پر امن اضلاع میں ہوتا ہے۔ تاہم دریائے سندھ کے کنارے واقع اس علاقے میں دہشت گردی اور تشدد کے واقعات گزشتہ کئی سالوں سے ہوتے رہے ہیں۔
تقریباً ڈیڑھ سال قبل اس علاقے میں جمعیت علما اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کے قافلے پر ایک خود کش حملہ ہوا تھا جس میں ایک درجن کے لگ بھگ لوگ ہلاک اور بیس زخمی ہوئے تھے۔