طالبان کی غیر ملکی سرمایہ کاروں اور کمپنیوں کو دھمکی

فائل فوٹو

طالبان کے ترجمان نے ایک بیان میں کہا کہ آپریشن کے آغاز کے بعد جنگجوؤں اور ’’پاکستان بھر میں کوئی بھی اہم حکومتی تنصیب یا ادارہ‘‘ طالبان کا ہدف بن سکتا ہے۔
طالبان شدت پسندوں نے غیر ملکی سرمایہ کاروں اور کمپنیوں کو حملوں کی دھمکی دیتے ہوئے اُنھیں پاکستان چھوڑنے کی تنبیہ کی ہے۔

تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان شاہد اللہ شاہد کی طرف سے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ غیر ملکی سرمایہ کار، فضائی کمپیناں اور بین الاقوامی ادارے پاکستان کے ساتھ اپنے معاملات فوری معطل کریں کیونکہ ان کی ’’تمام سرگرمیوں اور تجارت سےحاصل ہونے والا سرمایہ‘‘ حکومتی آپریشن کے لیے استعمال ہو رہا ہے۔

دوسری جانب ملک میں سکیورٹی کے انتظامات سخت کر دیئے گئے ہیں۔ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں رینجرز اور پولیس کے مشترکہ گشت میں اضافے کے ساتھ ساتھ ناکوں پر چیکنگ بھی بڑھا دی گئی ہے۔

(فائل فوٹو)

عسکریت پسندوں کے ترجمان کا کہنا تھا کہ آپریشن ’’ضرب عضب‘‘ کے اعلان کے بعد جنگجوؤں اور ’’پاکستان کی حکومت پورے ملک میں ایک دوسرے کے مد مقابل ہیں، پاکستان بھر
میں کوئی بھی اہم حکومتی تنصیب یا ادارہ‘‘ طالبان کا ہدف بن سکتا ہے۔


نواز شریف انتظامیہ کے حکم کے بعد پاکستانی افواج نے اتوار کو القاعدہ سے منسلک شدت پسندوں کے گڑھ شمالی وزیرستان میں ایک ’’جامع‘‘ کارروائی کا آغاز کیا۔

حکومت نے مارچ میں طالبان سے مذاکرات کا عمل شروع کیا لیکن ایک ماہ کے بعد ہی وہ تعطل کا شکار ہو گیا جب شدت پسندوں نے مطالبات پورے نا ہونے اور اپنے ساتھیوں کے خلاف مبینہ کارروائیوں پر فائر بندی میں توسیع کرنے سے انکار کر دیا تھا اور مختلف شہروں میں تشدد کی کارروائیاں شروع ہو گئیں۔

ان میں سے مہلک کارروائی رواں ماہ کراچی ائیرپورٹ پر ہوئی جس میں 10 مسلح حملہ آوروں نے سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں سمیت کم از کم 25 افراد کو ہلاک کر دیا تھا۔

جوابی کارروائی میں تمام حملہ آور مارے گئے تھے۔

وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے فوج کی طرف سے آپریشن کے اعلان کے بعد نجی ٹیلی ویژن چینلز سے گفتگو میں شدت پسندوں کی جوابی کارروائیوں کے خدشے کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا ’’ (مذاکرات) کو ہماری کمزوری سمجھا گیا مگر اب اس کا جواب دینا ضروری سمجھا گیا ہے‘‘۔

ایک دہائی سے زائد عرصے سے جاری خونریز دہشت گردی میں سیکورٹی اہلکاروں سمیت 40 ہزار پاکستانی ہلاک ہو چکے ہیں اور ملک کی معیشت کو اربوں روپے کا نقصان پہنچا ہے۔
ہوئے

تاہم بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ طالبان کی طرف سے یہ دھمکی ان کی کمزوری کی بھی مظہر ہے۔

امریکہ میں نائین الیون حملوں کے بعد بریگیڈئیر (ریٹائرڈ) اسد منیر قبائلی علاقوں میں کافی عرصہ تک سیکورٹی کے امور کی نگرانی کرتے رہے۔ وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ ’’ان (شدت پسندوں) کو یہ پتہ چل گیا ہے کہ (آپریشن کے حق میں) عوامی اتفاق رائے پیدا ہو گیا ہے۔۔۔۔ تو وہ ماحول پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ اگر ہمارے خلاف آپریش ہوا تو تباہی ہوجائے گی۔ کارروباری لوگ چلے جائیں گے، ان کو ڈراؤ۔‘‘

ان کا کہنا تھا کہ بیشتر عرب جنگجو شمالی وزیرستان سے نکل کر مشرق وسطیٰ چلے گئے ہیں اور وہاں وسطی ایشائی ریاستوں سے تعلق رکھنے والے عسکریت پسند، طالبان اور لشکر جھنگوی کے جنگجو روپوش ہیں۔

’’یہ سارے ملے ہوئے ہیں اور ایک دوسرے کی یہ سپورٹ کرتے ہیں کیونکہ یہ آپریشن سب کے خلاف ہے۔‘‘

ایک سینئیر سرکاری عہدیدار کے مطابق اس فوجی کارروائی میں ’’افغان عسکریت پسند حقانی نیٹ ورک کے جنگجوؤں کو نشانہ بنایا جائے گا، اگر وہ شمالی وزیرستان میں موجود ہوئے۔‘‘

حکومت میں شامل عہدیدار پہلے ہی عسکریت پسندوں کی طرف سے فوجی آپریشن کے جواب میں تشدد کی کارروائیوں کے خدشے کا اظہار کر چکے ہیں۔

فوج کے ترجمان کے مطابق ملک بھر میں بڑے شہروں میں سیکورٹی بڑھا دی گئی ہے اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مدد کے لیے فوجی سپاہیوں کو چوکس اور مختلف مقامات کی طرف بھیج دیا گیا ہے۔