دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مصروف ملک پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف نے ملک کو غیر مستحکم کرنے والے عناصر کے خلاف ایک بار پھر قومی اتحاد کا تذکرہ کرتے ہوئے دہشت گردی کے مکمل خاتمے کا عزم ظاہر کیا ہے۔
بدھ کو قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے انٹیلی جنس ادارے اور عوام، حکومت اور قومی سلامتی کے ادارے دہشت گردی کے خلاف متحد ہیں۔
دو روز قبل کوئٹہ میں ایک وکیل رہنما کو ہدف بنا کر قتل کیے جانے اور پھر سول اسپتال کے باہر ہونے والے بم دھماکے میں 70 سے زائد افرد کی ہلاکت پر حزب مخالف اور بعض سماجی حلقوں کی طرف سے دہشت گردی کے خلاف قومی لائحہ عمل پر سوالیہ نشانہ اٹھاتے ہوئے حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا تھا۔
تاہم وزیراعظم نے اس تنقید کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان ایک متفقہ لائحہ عمل ہے جسے ہر صورت میں مکمل کیا جائے گا۔
"آپریشن ضرب عضب اور نیشنل ایکشن پلان قومی قیادت کا اتفاق رائے سے منظور کردہ ایجنڈا ہے جسے ہر قیمت پرمکمل کیا جائے گا۔ تمام سیاسی و عسکری قیادت اس کا تہیہ کر چکی ہے۔۔۔پاکستان کے عوام، حکومت، مسلح افواج، پولیس اور قومی سلامتی کے ادارے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں متحد ہیں"۔
کوئٹہ میں پیش آنے والا واقعہ رواں سال پاکستان میں ہونے والا دہشت گردی کا دوسرا مہلک ترین واقعہ تھا۔ اس سے قبل مارچ میں لاہور کے ایک پارک میں ہونے والے خودکش بم حملے میں کم از کم 74 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
بدھ کو قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ ایک پارلیمانی کمیٹی بنائی جائے جس میں دہشت گردی کے خلاف کوششوں پر اپوزیشن کا موقف اور مشاورت کو بھی سامنے رکھا جائے۔
"ہم مل کر لڑنا چاہتے ہیں دشمنوں سے، اکیلا کوئی نہیں لڑ سکتا، حکومت اکیلی دشمنوں سے نہیں لڑ سکتی یہ قومی جنگ ہونی چاہیے ان دہشت گردوں کے خلاف ان قوتوں کے خلاف جو پاکستان کو کمزور کرنا چاہتے ہیں۔"
وفاقی وزیرداخلہ چودھری نثار علی خان نے ایوان میں خطاب کرتے ہوئے حزب مخالف کی تنقید کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ماضی کی نسبت ملک میں امن و امان کی صورتحال میں بہتری دیکھی گئی ہے اور تنقید کرنے والوں کو چاہیے کہ وہ دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں انگلیاں اٹھانے کی بجائے قومی سلامتی کے اداروں کے ہاتھ مضبوط کریں۔
انھوں نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے سخت قوانین کی ضرورت ہے۔
"فوجی عدالتیں بھی چند مہینے کی مہمان ہیں کوئی بھی جمہوری حکومت، سیاسی حکومت نہیں چاہتی کہ کوئی سخت قانون لایا جائے مگر جو لوگ قانون نہیں سمجھتے کوئی مذہب نہیں سمجھتے ان کے لیے کوئی ایسا قانون کہ جس سے یہ جلد سے جلد منطقی انجام تک پہنچ سکیں وہ ضروری ہے۔
دہشت گردی کے خلاف قومی لائحہ عمل کو موثر بنانے اور مزید اقدام پر غور کے لیے جمعرات کو بھی اسلام آباد میں ایک اعلیٰ سطحی اجلاس ہوگا جس میں وزیراعظم اور فوج کی قیادت کے علاوہ وزرائے اعلیٰ بھی شرکت کریں گے۔