پاکستان نے افغانستان سے سیب کے علاوہ دیگر تازہ پھلوں کی درآمد پر عائد 17 فی صد سیلز ٹیکس ختم کرنے کا اعلان کیا ہے جس کے بعد ماہرین اس اُمید کا اظہار کر رہے ہیں کہ ایسے اقدامات سے مسائل سے دوچار افغان معیشت کو فائدہ پہنچ سکتا ہے۔
دوسری جانب امریکی محکمۂ خزانہ نے بھی حال ہی میں بعض بین الاقوامی امدادی تنظیموں کو افغان عوام کو امداد فراہم کرنے کی اجازت دے دی ہے۔
امریکہ کے محکمۂ خزانہ کے ایک بیان کے مطابق امریکہ عالمی مالیاتی اداروں اور بین الاقوامی تنظیموں کے ساتھ مل کر افغانستان میں زرعی سامان، ادویات اور دیگر وسائل کی فراہمی کے لیے کام جاری رکھے گا۔ لیکن امریکہ نے واضح کیا ہے کہ بعض طالبان رہنماؤں اور حقانی نیٹ ورک پر واشنگٹن کی طرف سے عائد تعزیرات برقرار رہیں گی۔
پاکستان اور امریکہ کی طرف سے یہ اقدامات ایسے وقت میں سامنے آئے ہیں جب پاکستان عالمی برادری پر زور دے رہا ہے کہ افغانستان میں اقتصادی بحران سے بچنے کے لیے عالمی برادری کو افغانستان کی اقتصادی امداد جاری رکھنی چاہیے۔
لیکن امریکہ سمیت عالمی برادری طالبان پر زور دے رہی ہے کہ افغانستان میں ایک ایسی جامع حکومت قائم کریں جس میں انسانی حقوق کا احترام ہو بلکہ وہ بین الاقوامی برادری سے کیے گئے وعدوں کی پاسداری کریں بصورت دیگر بین الاقوامی برداری کی طرف سے طالبان حکومت کو تسلیم نہیں کیا جائے گا۔
اگرچہ طالبان متعدد بار اس بات کا اعادہ کر چکے ہیں کہ وہ عالمی برادری کے ساتھ مل کر چلنا چاہتے ہیں اور وہ اپنے وعدوں کی پاسداری کریں گے لیکن اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے دوران پاکستانی، امریکہ، چین اور روس کے سفارت کاروں کے درمیان ہونے والی ملاقاتوں میں طالبان کو باور کرایا گیا ہے کہ وہ عالمی برادری سے کیے گئے وعدے پورے کریں۔
بین الاقوامی امور کے تجزیہ کار رسول بخش رئیس کا کہنا ہے کہ پاکستان طالبان پر بھی زوردے رہا ہے کہ وہ بین الاقوامی برادری کے ساتھ کیے گئے وعدوں کی پاسداری کریں لیکن اگر طالبان پاکستان کے مشوروں پر غور نہیں کریں گے تو اُن کی مشکلات میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
رسول بخش رئیس کا کہنا ہے کہ اگر طالبان ایک جامع حکومت تشکیل کرنے میں ناکام رہے تو انہیں سیاسی اور اقتصادی مسائل کا سامنا کر نا پڑ سکتا ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ طالبان کو نہ صرف اپنے اندرونی حلقوں سے مخالفت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے بلکہ طالبان مخالف حلقوں کی طرف سے بھی مزاحمت ہو سکتی ہے۔
رسول بخش رئیس کا کہنا ہے کہ طالبان کو پاکستان کے مشوروں پر غور کرنا چاہیے کیوں کہ پاکستان دنیا کو باور کرا رہا ہے کہ وہ طالبان کے ساتھ رابطے قائم کریں اور افغانستان کی اقتصادی امداد جاری رکھیں۔
لیکن رسول بخش رئیس کا کہنا ہے کہ طالبان کو اس وقت ایک مشکل صورتِ حال کا سامنا ہے۔
اُن کے بقول اس وقت طالبان کی صفوں میں ایسے رہنما موجود ہیں جو اس بات کے خواہاں کے اس وقت دنیا کے حالات تبدیل ہو چکے ہیں اس لیے طالبان کو دنیا کے ساتھ چلنا ہو گا لیکن دوسری جانب قدامت پسند سوچ بھی موجود ہے۔
رسول بخش رئیس کا کہنا ہے کہ پاکستان ایک حد سے آگے طالبان کی وکالت نہیں کرے گا کیونکہ پاکستان دنیا کو یہ تاثر نہیں دینا چاہے گا کہ طالبان اس کے مکمل اثر و رسوخ میں ہیں۔
دوسری جانب ان کے بقول طالبان بھی نہیں چاہیں گے کہ بین الاقوامی سطح پر پاکستان ان کی نمائندگی کرے اور اس وقت طالبان بھی دنیا سے براہ راست رابطے میں ہیں۔
رسول بخش رئیس کا کہنا ہےطالبان کو دنیا کے ساتھ بھی تعاون کرنا ہو گا بصورتِ دیگر ایک مستحکم حکومت قائم کرنا ایک چیلنج ہو گا۔
Your browser doesn’t support HTML5
رسول بخش رئیس کا کہنا ہے کہ طالبان کا بین الاقوامی تجارت کو فروغ دینا ضروری ہے تاکہ افغانستان کی اقتصادی صورتِ حال بہتر ہو سکے۔
اُن کے بقول افغانستان کی تجارت کا زیادہ تر دارمدار ایران اور پاکستان پر ہے۔
پاک افغان جوائنٹ چیمبر آف کامرس کے نائب صدر ضیاالحق سرحدی کا کہنا ہے کہ پاکستان کی طرف سے افغانستان سے درآمد ہونے والے والے تازہ پھلوں پر عائد سیلز ٹیکس ختم کرنے سے پاکستان اور افغانستان کی باہمی تجارت پر مثبت اثر پڑے گا۔
ان کا کہنا ہے کہ اس وقت صرف سیمنٹ کے ٹرک افغانستان جا رہے تھے لیکن دیگر اشیا کی تجارت رکی ہوئی تھی لیکن اب افغانستان سے تازہ پھلوں کی پاکستان درآمد پر عائد ٹیکس ختم کرنے کے نتیجے میں تجارت پر بھی مثبت اثر پڑے گا۔
ضیاالحق سرحدی کا کہنا ہے کہ اب پاکستان نے سوائے سیب کے تمام تازہ پھلوں پر سیلز ٹیکس ختم کر دیا ہے اس اقدام سے باہمی تجارت پر مثبت اثر پڑے گا۔
ضیاالحق سرحدی کا کہنا ہے اس وقت افغانستان میں ڈالر کی قلت ہے اور بینک بھی پوری طرح فعال نہیں ہے اس لیے پاک افغان سرحد کے آر پار دوطرفہ تجارت پوری طرح فعال نہیں ہوئی ہے۔
ضیاالحق سرحدی کا مزید کہنا ہے کہ افغانستان خطے میں تجارتی لحاظ سے پاکستان کے لیے نہایت اہمیت کا حامل ہے پاکستان افغانستان سے تازہ اور خشک پھلوں کے علاوہ کوئلہ اور قیمتی پتھر بھی درآمد کرتا ہے۔
اُن کے بقول افغانستان پاکستان سے اشیائے ضرورت کے علاوہ تعمیراتی اور دیگر سامان پاکستان سے درآمد کرتا ہے۔
ضیا الحق کا کہنا ہے کہ چند سال پہلے پاک افغان باہمی تجارت کا حجم 2.5 ارب ڈلر تھا لیکن یہ کم ہو کر اب تقریبا 80 کروڑ ڈالر کی سطح تک گر گیا ہے۔ لیکن ان کا کہنا ہےکہ باہمی تجارت کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کر کے باہمی تجارت کو پانچ ارب ڈالر تک لے جایا جا سکتا ہے۔