پاکستان کی زرعی تحقیقی کونسل کا کہنا ہے کہ اس وقت زرعی شعبے میں 80 فیصد پانی ضائع ہورہا ہے جسے اگربچا لیا جائے تو نئے ڈیم تعمیر کیے بغیر ملک نہ صرف پانی کی قلت سے نمٹ سکتا ہے بلکہ آئندہ کسی ممکنہ بحران کو بھی روکا جا سکتا ہے۔
بدھ کواسلام آباد میں پانی کے موضوع پر منعقدہ ایک علاقائی کانفرنس کے موقع پر وائس آف امریکہ سے انٹرویو میں ادارے کے چیئرمین ڈاکٹر ظفر الطاف نے کہا کہ آبپاشی کے ناقص نظام اور پانی کی تقسیم میں نقائص کی وجہ سے 80 فیصد پانی ضائع ہو جاتا ہے۔
"ہمارے یہاں روایتی طور پر آب پاشی کا نظام ایسا رہا ہے کہ اس میں پانی نا صرف زیادہ استعمال ہوتا ہے بلکہ بہت ضائع بھی ہوتا ہے اور پیداوارکا درکار ہدف بھی حاصل نہیں ہوتا "۔
ماہرین کےاندازوں کے مطابق پاکستان میں دستیاب پانی میں سے 90 فیصد زرعی شعبے کودیا جاتا ہےجبکہ باقی کا دس فیصد گھریلو کمرشل اور صنعتی صارفین استعمال کرتے ہیں۔
ظفر الطاف کا کہنا تھا کہ پانی کے موثر استعمال کو یقینی بنانے کے لیے تمام متعلقہ حکومتی اداروں کو ایک مربوط حکمت عملی وضع کرنی ہوگی۔ ان کے بقول کونسل نے اس ضمن میں پہلے ہی اقدامات شروع کر دئیے ہیں جس میں کھڑے پانی میں چاول کی کاشت کی حوصلہ شکنی کرنا شامل ہے ۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ بڑھتی ہوئی آبادی اور ملک میں پانی کی قلت نے پاکستان کو آبی قلت کے شکار افریقی ملکوں کے برابر لا کھڑا کیا ہے۔
اعداد و شمارکے مطابق 1951 میں جب ملک کی آبادی صرف تین کروڑ 30 لاکھ تھی تو پانی کی فی کس دستیابی 5600 کیوبک میٹرتھی اور اب جب ملک کی آبادی 17 کروڑ تک پہنچ گئی ہے تو پانی کی فی کس دستیابی 1100 کیوبک میٹر تک رہ گئی ہے اور اس میں متواتر کمی واقع ہو رہی ہے۔
کانفرنس میں موجود ماہرین نے اس خدشے کا اظہارکیا کہ اگر پانی کی دستیابی کو بڑھانے کے لیے فوری طور پر ٹھوس اقدامات نا کیے گئے تو پاکستان کو آگے چل کر موسمی تبدیلیوں کے باعث ممکنہ خشک سالی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جس کے ان کے مطابق سنگین نتائج بر آمد ہو سکتے ہیں۔
ماہرین نے اس بات پربھی تشویش کا اظہار کیا کہ پاکستان میں تقریباً 80 فیصد لوگوں کو پینے کا محفوظ پانی دستیاب نہیں ہے جس کی وجہ سے ہر سال نہ صرف اڑھائی لاکھ کے قریب ہلاکتیں ہوتی ہیں بلکہ گندے پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں کی مد میں ملک کو بھاری اقتصادی نقصان بھی اٹھانا پڑتا ہے۔