پاکستان کو اس وقت اپنی تاریخ کے بدترین سیلاب کا سامنا ہے۔ دہشت گردی اور غربت جیسے سنگین مسائل کے ساتھ ساتھ سیلاب متاثرین کی بروقت مدد، ان کی اپنےگھروں میں منتقلی اور تباہ شدہ علاقوں کی تعمیر ِ نو ایسے امور ہیں جس سے نمٹنا اتنا آسان نہیں ہے۔ جب کہ ماہرین کا کہنا ہے کہ آنے والے برسوں میں پاکستان کو جس انتہائی سنگین مسئلے کا سامنا کرنا پڑے گا ، وہ ہے پانی کی بڑھتی ہوئی قلت جو ایک بڑے بحران کی شکل اختیار کر سکتی ہے۔
پاکستان کے سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں پانی اترنے کے بعد وہاں تعمیر نو اور متاثرین کی بحالی ایک کڑا امتحان ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ لاکھوں ایکٹر رقبے پر کھڑی فصلوں کی تباہی کے آنے والے دنوں میں خوراک کی شدید قلت پیدا ہوسکتی ہے۔
ایک امریکی تھنک ٹینک ووروولسن کے ایشیائی امور کے ایک ماہر مائیکل کوگل مین کہتے ہیں ہیں کہ سیلابوں سے پہلے بھی پاکستان میں پانی کی صورتحال تسلی بخش نہیں تھی۔
2009ء میں ووڈرو ولسن سینٹر کی جاری کردہ ایک رپورٹ میں کہا گیاتھا کہ پاکستان میں پانی کی بڑھتی ہوئی قلت کی وجہ یہ ہے کہ وہاں1950 ء کے بعدکے سے اس مسئلے کو نظر انداز کیا جارہاہے۔
ورلڈ بینک کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث ہمالیہ کےگلیشیئر تیزی سے پگھل رہے ہیں جس کے نتیجے میں آئندہ سو برسوں تیس سے چالیس فی صد تک پانی کی کمی واقع ہوجائے گی۔
اسٹیون سولومن ، پانی ، توانائی اور معاشرت کے تعلق پر لکھی گئی ایک کتاب کے مصنف ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں پانی کا بڑا ذریعہ دریائے سندھ ہے جس کا زیادہ تر پانی سمندر تک نہیں پہنچ پا تا ۔وہ کہتے ہیں کہ پاکستان پہلے ہی دریا ئے سندھ سے بڑی مقدار میں پانی حاصل کررہاہے۔
پاکستان کو، جسےدہشت گردی اور غربت جیسے سنگین مسائل کا سامنا ہے، ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کے لیے اپنے پانی کے وسائل کا درست استعمال بہت اہمیت رکھتا ہے۔ سولومن کہتے ہیں کہ پاکستان میں پانی کا مسئلہ گھمبیر سیاسی رنگ اختیار کر رہا ہے اور صوبوں کے درمیان تنازعات کی ایک اہم وجہ بھی بن رہا ہے۔
پنجاب میں ملک کی بہترین اور زرخیز زمین ہے جبکہ سندھ کے پاس نسبتا کم اراضی ہے اور اس کی زرخیری بھی کم ہے۔جس کی وجہ سے سندھ میں بسنے والوں کو پانی کی غیر منصفانہ تقسیم کی شکایت رہتی ہے اور ماہرین کے مطابق یہی مسئلہ دونوں صوبوں کے درمیان تنازعات کی ایک اہم وجہ ہے ۔
کوگل مین کے مطابق پاکستان کا اپنے پڑوسی ملک بھارت کے ساتھ بھی پانی کا تنازع چل رہا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ شدت پسند اسے پانی کی دہشتگردی سے تعبیر کرتے ہیں۔
حافظ سعید لشکر طیبہ کے سربراہ ہیں،جس پر ممبئی حملے کرنے کا الزام ہے۔ حافظ سعید کا کہنا ہے کہ بھارت میں ڈیمز بنائے جا رہے ہیں، اور پاکستان کی زمین بنجر کی جا رہی ہے جس کی وجہ سے پاکستان کو ایک سنگین بحران کا سامنا ہے۔ اقوام متحدہ مسئلے سے آنکھیں چرا رہی ہے اور کوئی بھی بھارت کو ڈیمز بنانے سے نہیں روک رہا۔
امریکی حکام پانی کی اہمیت کو خارجہ پالیسی کے معاملے کے طور پر دیکھ رہے ہیں اوروہ پاکستان کو دی جانے والی کئی ارب ڈالر کی امداد میں سے پانی کے نئے پروجیکٹس پر کام کرنے کے لیے کہہ رہے ہیں۔
سٹیون سولومن کہتے ہیں کہ امریکی محکمہ ِ خارجہ اس حوالے سے متفکر دکھائی دیتا ہے اور ایسا پہلے نہیں تھا۔ میرے نزدیک ہمیں پاکستان میں پانی کی ضروریات پورا کرنے کے لئے بھی کام کرنا ہوگا۔
ماہرین کے مطابق پاکستانی کو اس سے کہیں زیادہ غیر فوجی امداد کی ضرورت ہے جتنی کا امریکہ نے وعدہ کیا ہے ۔اور ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ پاکستان کے لئے یہ امداد اور بھی اہم ہے جو خطے میں امریکی مفادات کی لئے انتہائی اہم کردار ادا کر رہا ہے۔