بینائی سے محروم بچوں کی صلاحیتیں اجاگر کرنے پر زور

خصوصی بچوں میں تخلیقی خیالات کو مزید ابھارنے کے لیے المکتوم سینٹر میں حال ہی میں ایک لائبریری کا قیام بھی عمل میں لایا گیا ہے جہاں کہانیوں اور تفریحی مواد پر مبنی کتابیں مہیا کی گئی ہیں۔
پاکستان میں سرکاری عہدیداروں اور سماجی کارکنان نے بینائی سے محروم افراد خصوصاً بچوں سے متعلق معاشرتی رویوں میں مثبت تبدیلی کی اہمیت پر زور دیا ہے۔

اُنھوں یہ پیغام ایسے وقت دیا جب 15 اکتوبر بروز منگل دنیا بھر میں بینائی سے محروم افراد کا عالمی دن منایا گیا۔ یہ دن نابینا پن کی اہم علامت یعنی سفید چھڑی سے منسوب ہے۔

بینائی سے محروم بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے اسلام آباد میں قائم مرکز المکتوم سینٹر کی پرنسپل روبینہ انجم کا کہنا ہے کہ یہ خصوصی بچے دیگر لوگوں کی ہمدری کے محتاج نہیں بلکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان کی صلاحیتوں کو اجاگر کرکے انھیں زندگی کی مشکلات کا بہتر انداز میں سامنا کرنے کے قابل بنایا جائے۔

خصوصی بچوں میں تخلیقی خیالات کو مزید ابھارنے کے لیے المکتوم سینٹر میں حال ہی میں ایک لائبریری کا قیام بھی عمل میں لایا گیا ہے جہاں کہانیوں اور تفریحی مواد پر مبنی کتابیں مہیا کی گئی ہیں۔

فوزیہ من اللہ


فوزیہ من اللہ کا تعلق فن مصوری سے ہے اور اُنھوں نے بینائی سے محروم بچوں کے لیے مخصوص کتابیں تیار کرکے اس لائبریری کو عطیہ کیں۔

’’مقصد یہ تھا کہ خصوصی بچوں کے اسکول میں لائبریری کا ہونا بھی بہت ضروری ہے ... کیوں کہ وہ بھی کتابیں پڑھ کر اُتنا ہی محظوظ ہوتے ہیں جتنا کہ دیگر بچے۔‘‘

فوزیہ من اللہ نے بینائی سے محروم بچوں کو زندگی میں مساوی موقعوں کی فراہمی پر زور دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو اس سمت میں ’’ابھی طویل سفر طے کرنا ہے‘‘۔

ادھر صدرِ مملکت ممنون حسین نے عالمی دن کی مناسبت سے اپنے تحریری پیغام میں کہا ہے کہ حکومت بینائی سے محروم افراد کے حقوق کے تحفظ اور ان کی زندگی سہل بنانے کے لیے ہر ممکن اقدامات کرتی رہے گی۔

اُنھوں نے خصوصی افراد کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ادارون کے علاوہ انفرادی سطح پر بھی کوششیں تیز کرنے پر زور دیا۔