حقوق انسانی اور حقوق نسواں کی علمبردار تنظیموں کا کہنا ہے کہ خواتین کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے 2011 میں پاکستان کی پارلیمان میں قابل ستائش اور اہم قوانین کی منظوری کے باوجود بھی سال بھر میں خواتین کے خلاف تشدد کے واقعات کی شرح میں خاطر خواہ کمی نہیں ہو سکی ہے۔
ناقدین کہتے ہیں کہ قوانین پر موثر عملدرآمد 2011 میں بھی پاکستان میں حکمرانوں کے لیے ایک بڑا چیلنج رہا لیکن حکمران جماعت پیپلز پارٹی کی رکن پارلیمنٹ یاسمین رحمان کہتی ہیں کہ قوانین پر عملدرآمد کو یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ معاشرتی رویوں میں تبدیلی سے ہی عمومی صورت حال کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔
’’کاروکاری، خواتین کا اغوا اور سوسائٹی کا جو مانڈ سیٹ ہے وہ خواتین کے خلاف جبر و تشدد ہے اس میں بہت زیادتی دیکھنے میں آئی ہے۔ ایک طرف تو کچھ مثبت چیزیں نظر آ رہی ہیں تو دوسری طرف خواتین کے خلاف ظلم و جبر میں اضافہ ہوا ہے۔‘‘
قومی اسمبلی نے نومبر 2011 میں خواتین دشمن روایات کے خلاف قانون کی متفقہ طور پر منظوری دی جس کے تحت اب ملک کے کسی بھی حصے میں خاندان کی عورتوں کو جائیداد سے محروم رکھنے کے لیے قران سے اُن کا نکاح پڑھوانے اور صلح کے بدلے لڑکی دینے کی دقیانوسی روایات کو قابل جرم فعل قرار دے کر ان میں ملوث افراد کو سخت سزائیں دی جا سکتی ہیں۔
2011 کے آخری مہینے میں دشمنی کی بنا پر تیزاب پھینکنے کے خلاف بھی قانون منظور کیا گیا۔ شادی میں جہیز نہ ملنے یا پھر ذاتی دشمنی کی وجہ سے خواتین پر تیزاب پھینک کر انہیں تشدد کا نشانہ بنائے جانے کے واقعات بھی عام ہیں۔
سندھ ہائی کورٹ کی سابق جج ماجدہ رضوی کہتی ہیں کہ ان قوانین کا فائدہ یہ ہے کہ عورتیں ان کا سہارا لے کر عدالت کا دروازہ کٹھکٹھا سکتی ہیں اور ماضی کی طرح ایسے جرائم میں ملوث افراد کے لیے اب قانون کی گرفت سے بچ اتنا نکلنا آسان نہیں ہوگا۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ خواتین کو تحفظ دینے کے لیے پولیس عدلیہ اور ضلعی انتظامیہ کی سطح پر انصاف کی آسان رسائی کے نظام کو بہتر بنانا پڑے گا۔
پاکستان کی پچھلی حکومت نے غیرت کے نام پر قتل کے حوالے سے قانون سازی کی تھی جسے بہت پذیرائی تو حاصل ہوئی لیکن عملدرآمد میں فقدان کی وجہ سے ہومین رائٹس کمیشن آف پاکستان کے مطابق رواں سال بھی 675 خواتین غیرت کے نام پر قتل ہوئیں ہیں۔
تنظیم کی سربراہ زہرہ یوسف کہتی ہیں کہ خواتین، جن کے لیے قوانین بنائے گئے ہیں انہیں معلوم ہی نہیں ہے کہ وہ ان سے کیسے مستفید ہو سکتی ہیں۔
’’مقامی سطح پر چاہیے پولیس ہو یا ڈی پی او یا ڈی سی او ہیں اس سطح پر بہت ضروری ہے کہ ان کو بتایا جائے کہ عورتوں کے لیے جو قانون بنے ہیں اس پر صحیح طریقے سے عملدرآمد ہو اور ساتھ ساتھ نچلی عدالتوں کو بھی اس حوالے سے آگاہ کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘
لیکن اکثر مبصرین اس بات کی حقیقت سے بھی انکاری نہیں ہیں کہ پاکستان میں نہ صرف عورتوں بلکہ مردوں کے لیے بھی انصاف تک رسائی بہت مشکل ہے جس کی بڑی وجہ چھوٹی عدالتوں میں مقدمات کے التوا، پولیس کے نظام اور انتظامی نقائص ہیں جنہیں دور کیے بغیر پاکستانی معاشرے میں انسانی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانا کسی بھی حکومت کے لیے بلاشبہ ایک بہت مشکل کام ہوگا۔