جرگہ و پنچائیت سے متعلق مجوزہ قانون پر تحفظات کا اظہار

قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کے چیئرمین محمود بشیر ورک نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ اس مجوزہ قانون کا مقصد لوگوں کو معمولی تنازعات میں جلد انصاف کی فراہمی ہے۔

پاکستان کے ایوان زیریں یعنی قومی اسمبلی نے گزشتہ ہفتے ایک متنازع بل کی منظوری دی، جس کا مقصد روایتی جرگہ اور پنچائیت کے نظام کو قانونی تحفظ فراہم کرنا ہے۔

اس مجوزہ قانون کے حامیوں کا کہنا ہے کہ اس کا مقصد ملک کی عدالتوں پر مقدمات کے بوجھ کو کم کرنے کے علاوہ سول یا معمولی تنازعات سے متعلق معاملات کو جلد حل کرنا ہے۔

حکومت میں شامل عہدیداروں کا کہنا ہے کہ مجوزہ پنچائیت یا جرگہ عدالتی نظام کے زیر نگرانی ہی کام کرے گا۔

لیکن حقوق نسواں کے سرگرم کارکنوں کا کہنا ہے کہ عمومی مشاہدے میں یہ آیا ہے کہ انصاف کی فراہمی یا معاملات کے حل کے لیے ایسے روایتی طریقہ کار میں خواتین کی بات کو زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی۔

خواتین کی حالت زار پر نظر رکھنے اور اُن کے تحفظ سے متعلق ادارے ’نیشنل کمیشن آن دی سٹیٹس آف ویمن‘ کی چیئرپرسن خاور ممتاز نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ جرگوں اور پنچائیت میں کئی متنازع فیصلے ہوتے رہے ہیں، جس سے اُن کے بقول جرگہ یا پنچائیت کا نام آتے ہی منفی تاثر پیدا ہوتا ہے۔

’’عورتوں سے متعلق جرگوں کے جو فیصلے ہوئے ہیں اس میں عورتیں ہی شکار ہوتی ہیں، یہ سب سی بڑی (تشویش) ہے، دوسرا یہ کہ ہمارے ملک میں جو ایک سماجی سوچ ہے کہ عورت کی حمایت کم ہی ہوتی ہے تو اس کے اندر رہتے ہوئے اگر آپ خاندانی تنازعے اور جائیداد کے تنازعات لائیں گے تو عورت پر بہت دباؤ ہوتا ہے۔‘‘

تاہم قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کے چیئرمین محمود بشیر ورک نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ اس مجوزہ قانون کا مقصد لوگوں کو معمولی تنازعات میں جلد انصاف کی فراہمی ہے۔

’’فریقین کی تسلی ہو جاتی ہے، اگر فریقین آپس میں طے کر لیں کہ ہمارا یہ فیصلہ پنچائیت میں ہو جائے اس میں حرج کی کوئی بات نہیں ہے ۔۔۔ موجودہ قانونی نظام میں خرابی نہیں ہے افسوس تو اس بات کا ہے نظام میں کام کرنے والے حضرات اس کو اتنی طوالت دے رہے ہیں کہ دادا اگر مقدمہ کرے تو پوتا بھی شاید اس کا فیصلہ دیکھ نہ پائے اس مصیبت سے بچنے کے لیے اور عدالتوں کا بوجھ کم کرنے کے لیے کوشش کی جا رہی ہے کہ وہ پنچائیت اور جرگہ یا جو بھی اس کا نام لیں (یہ ایک متبادل ہے) کہ عدالت کی نگرانی میں اگر کوئی فیصلہ ہو جائے تو اس میں کوئی جرج کی بات نہیں ہے۔‘‘

لیکن خاور ممتاز کہتی ہیں کہ اس مجوزہ قانون کی بعض شقوں پر مختلف حلقوں کو اعتراض ہے۔

’’ابھی یہ مسودہ قانون قومی اسمبلی میں پاس ہوا ہے۔۔۔ مقصد اس کا یہی تھا کہ ایک آسان اور تیز ٹریک مہیا کریں لیکن اس کی کچھ شقیں ہیں اس پر لوگوں کو تحفظات ہیں اور جو حکومت ہے وہ اس پر کھل کر بات کرنے کو تیار ہے تو اس پر ابھی ہماری بات چیت آپس میں چل رہی ہے۔‘‘

(فائل فوٹو)

خاور ممتاز کے بقول معاملات کو حل کرانے کے لیے اگر مجوزہ فورم کو پنچائیت یا جرگہ کا نام دیا گیا تو پھر غیر قانونی طور پر جرگہ و پنچائیت قائم کرنے والوں کی بھی حوصلہ افزائی ہو گی۔

لیکن رکن قومی اسمبلی بشیر محمود ورک کہتے ہیں کہ فریقین کے درمیان صلح تو عدالتوں میں بھی ہو جاتی ہے اور اُن کے بقول اگر کوئی اپنی مرضی سے کسی کو معاف کرنا چاہے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔

’’اگر کوئی فریق کہے کہ میں نہیں مانتا تو اس کو مجبور نہیں کیا جا سکتا کہ وہ اس فورم میں آئے۔۔۔۔ باہمی مشاورت، باہمی اعتماد اور ایک دوسرے کی آزاد مرضی سے اگر کوئی فیصلہ کرانا چاہے تو کسی کو اعتراض نہیں ہونا چاہیئے۔۔میں تو سمجھتا ہوں کہ ریاست کو بھی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بھی اس میں مداخلت نہیں کرنی چاہیئے اگر عدالت میں جا کر ایک آدمی معافی دے سکتا ہے تو باہر کیوں نہیں معافی کی بات کر سکتا تو میری نظر میں یہ قانون سازی بڑی ضروری ہے۔‘‘

مجوزہ قانون کے بارے میں وزارت قانون کا کہنا ہے کہ اس کی منظوری کے بعد پہلے مرحلے میں اسے اسلام آباد میں نافذ کیا جائے گا اور بعد ازاں صوبائی حکومتوں کی مشاورت سے اس کا دائرہ کار دیگر علاقوں تک بڑھایا جائے گا۔

حکام کا کہنا ہے کہ اس مجوزہ قانون کے تحت صرف سول معاملات کو ہی پنچائیت یا جرگہ میں حل کیا جا سکے گا اور یہ بھی ضروری ہو کہ دونوں فریق باہمی رضامندی سے اس فورم کو استعمال کریں۔

لیکن اگر کوئی پنچائیت یا جرگہ میں نہیں جانا چاہتا تو وہ مروجہ عدالتوں سے رجوع کر سکتا ہے۔