اقوام متحدہ کے مشیر عارف سلیم نے کہا کہ معاشرے میں وسیع تر تبدیلی کے لیے ذہن اور کردار سازی کی اشد ضرورت ہے۔
اسلام آباد —
ماہرین اور انسانی حقوق کے کارکنوں کا ماننا ہے کہ خواتین پر تشدد سے متعلق قوانین اور ان کے حقوق کے بارے میں معاشرے میں آگاہی کے نا ہونے کی وجہ سے پاکستان میں عورتیں استحصال اور جبر کا شکار بنتی ہیں۔
یہ بات اسلام آباد میں جمعرات کو امریکی سفارتخانے اور اعلیٰ تعلیم کے پاکستانی ادارے ’’ ایچ ای سی‘‘ کی جانب سے منعقدہ ایک سیمینار میں سامنے آئی۔
خواتین پر تشدد کے خلاف آگاہی پیدا کرنے کی غرض سے عالمی سطح پر ہر سال ’’جنس کی بنیاد پر تشدد کے خلاف شعور کی بیداری کے 16 دن‘‘ منائے جاتے ہیں اور یہ سیمینار بھی اسی سلسلے میں ترتیب دیا گیا تھا جس میں دارالحکومت کی مختلف جامعات کے طلباء و طالبات نے شرکت کی جبکہ دیگر شہروں کے طالب علموں نے وڈیو لنک کے ذریعے بحث میں حصہ لیا۔
منتظمین کے مطابق اس سرگرمی کا اصل مقصد نوجوانوں کو ایک تعمیری بحث کے ذریعے اس گھمبیر مسئلے سے آگاہ کرنا اور پھر معاشرے میں خواتین پر ہونے والے تشدد کے خلاف ایک منظم مہم کا آغاز کرنا ہے جس میں ان کا کردار کلیدی ہو گا۔
بحث میں شریک امریکی سفیر رچرڈ اولسن کا کہنا تھا کہ کسی معاشرے میں خواتین کو مضبوط اور خود مختار بنانے کے لیے ان کا معاشی طور پر مضبوط ہونا بہت ضروری ہے اور اس کے لیے ان کی حکومت پاکستانی خواتین کی ہر ممکن مدد کرنے کو تیار ہے۔
انہوں نے کہا ’’میرا مقصد یہ نہیں کہ پاکستانیوں کو ایسے معاملات پر بتاؤں کہ کیا کرنا ہے اور کیا نہیں۔ کیونکہ میں خود غیر ملکی ہوں اور مجھے اس معاشرے کی پیچیدگیوں کا علم نہیں لیکن ہم چاہیں گے کہ ان معاملات پر بحث ہو‘‘۔
پیپلز پارٹی کی موجودہ حکومت میں خواتین کے حقوق سے متعلق کافی قانون سازی کی گئی ہے مگر انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق خواتین پر تشدد کے واقعات کی رپورٹ میں کمی نہیں ہوئی۔ خواتین کے حقوق کی تنظیم عورت فاؤنڈیشن کے مطابق 2011ء میں ساڑھے 8 ہزار عورتیں تشدد کا شکار ہوئیں جبکہ 2010ء میں یہ تعداد 8000 سے کم تھی۔
انسانی حقوق کے سرگرم کارکن عمران رضوی کا کہنا تھا کہ اضلاع کی سطح پر اداروں کی قوانین کے نفاذ، جرائم کے روک تھام اور آگاہی سے متعلق استعداد بہت کم ہے جس وجہ سے خواتین پر تشدد کے واقعات ہو رہے ہیں۔
اقوام متحدہ کے مشیر سلیم عارف کا ماننا تھا کہ معاشرے میں وسیع تر تبدیلی کے لیے ذہن اور کردار سازی کی اشد ضرورت ہے اور صرف قانون سازی سے مسائل حل ہونا ممکن نہیں۔
’’کیا ہمارے یہاں وہ نصاب رائج ہے یا تہذیبی و ثقافتی ڈھانچے موجود ہیں جو کہ ہمیں بار بار بتائیں کہ مرد اور عورت، لڑکا اور لڑکی کے درمیان مساوات ہونی چاہیے؟ ہمیں ان چیزوں پر کام کرنا ہوگا۔‘‘
انسانی حقوق کے نمائندوں اور ماہرین یہ باور کرتے ہیں کہ کسی بھی معاشرے میں خواتین پر تشدد کے خاتمے اور ان کے حقوق کے لیے مردوں میں ان مسائل کا ادراک اجاگر اور انہیں اس مہم کا حصہ بنائے بغیر کامیابی ممکن نہیں۔
یہ بات اسلام آباد میں جمعرات کو امریکی سفارتخانے اور اعلیٰ تعلیم کے پاکستانی ادارے ’’ ایچ ای سی‘‘ کی جانب سے منعقدہ ایک سیمینار میں سامنے آئی۔
خواتین پر تشدد کے خلاف آگاہی پیدا کرنے کی غرض سے عالمی سطح پر ہر سال ’’جنس کی بنیاد پر تشدد کے خلاف شعور کی بیداری کے 16 دن‘‘ منائے جاتے ہیں اور یہ سیمینار بھی اسی سلسلے میں ترتیب دیا گیا تھا جس میں دارالحکومت کی مختلف جامعات کے طلباء و طالبات نے شرکت کی جبکہ دیگر شہروں کے طالب علموں نے وڈیو لنک کے ذریعے بحث میں حصہ لیا۔
منتظمین کے مطابق اس سرگرمی کا اصل مقصد نوجوانوں کو ایک تعمیری بحث کے ذریعے اس گھمبیر مسئلے سے آگاہ کرنا اور پھر معاشرے میں خواتین پر ہونے والے تشدد کے خلاف ایک منظم مہم کا آغاز کرنا ہے جس میں ان کا کردار کلیدی ہو گا۔
بحث میں شریک امریکی سفیر رچرڈ اولسن کا کہنا تھا کہ کسی معاشرے میں خواتین کو مضبوط اور خود مختار بنانے کے لیے ان کا معاشی طور پر مضبوط ہونا بہت ضروری ہے اور اس کے لیے ان کی حکومت پاکستانی خواتین کی ہر ممکن مدد کرنے کو تیار ہے۔
انہوں نے کہا ’’میرا مقصد یہ نہیں کہ پاکستانیوں کو ایسے معاملات پر بتاؤں کہ کیا کرنا ہے اور کیا نہیں۔ کیونکہ میں خود غیر ملکی ہوں اور مجھے اس معاشرے کی پیچیدگیوں کا علم نہیں لیکن ہم چاہیں گے کہ ان معاملات پر بحث ہو‘‘۔
پیپلز پارٹی کی موجودہ حکومت میں خواتین کے حقوق سے متعلق کافی قانون سازی کی گئی ہے مگر انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق خواتین پر تشدد کے واقعات کی رپورٹ میں کمی نہیں ہوئی۔ خواتین کے حقوق کی تنظیم عورت فاؤنڈیشن کے مطابق 2011ء میں ساڑھے 8 ہزار عورتیں تشدد کا شکار ہوئیں جبکہ 2010ء میں یہ تعداد 8000 سے کم تھی۔
انسانی حقوق کے سرگرم کارکن عمران رضوی کا کہنا تھا کہ اضلاع کی سطح پر اداروں کی قوانین کے نفاذ، جرائم کے روک تھام اور آگاہی سے متعلق استعداد بہت کم ہے جس وجہ سے خواتین پر تشدد کے واقعات ہو رہے ہیں۔
اقوام متحدہ کے مشیر سلیم عارف کا ماننا تھا کہ معاشرے میں وسیع تر تبدیلی کے لیے ذہن اور کردار سازی کی اشد ضرورت ہے اور صرف قانون سازی سے مسائل حل ہونا ممکن نہیں۔
’’کیا ہمارے یہاں وہ نصاب رائج ہے یا تہذیبی و ثقافتی ڈھانچے موجود ہیں جو کہ ہمیں بار بار بتائیں کہ مرد اور عورت، لڑکا اور لڑکی کے درمیان مساوات ہونی چاہیے؟ ہمیں ان چیزوں پر کام کرنا ہوگا۔‘‘
انسانی حقوق کے نمائندوں اور ماہرین یہ باور کرتے ہیں کہ کسی بھی معاشرے میں خواتین پر تشدد کے خاتمے اور ان کے حقوق کے لیے مردوں میں ان مسائل کا ادراک اجاگر اور انہیں اس مہم کا حصہ بنائے بغیر کامیابی ممکن نہیں۔