پاکستان میں لگ بھگ ایک کروڑ 20 لاکھ خواتین ایسی ہیں جن کے پاس کمپوٹرائزڈ قومی شناخی کارڈ نہیں اور اس خدشے کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ وہ آئندہ عام انتخابات میں اپنے ووٹ کا حق استعمال نہیں کر سکیں گی۔
اطلاعات کے مطابق کوائف کا اندارج کرنے والے قومی ادارے ’نادرا‘ کا کہنا ہے کہ موجودہ وسائل میں آئندہ انتخابات سے قبل ان تمام خواتین کے شناختی کارڈز بنانا ممکن نہیں کیوں کہ یہ وقت طلب کام ہے اور کبھی کبھار ایک شناختی کارڈ کے لیے ضروری معلومات کو یکجا کرنے میں 45 منٹ تک کا وقت لگ جاتا ہے۔
تاہم الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ملک کے چاروں صوبوں کے 79 اضلاع میں خواتین کی انتخابی عمل میں شمولیت اور اُن کا نام انتخابی فہرستوں میں شامل کرنے کے لیے ایک مہم شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
یہ مہم آئندہ پیر سے شروع کی جائے اور اس کام مقصد یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ بالغ خواتین کو ووٹر فہرستوں میں شامل کیا جائے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ترجمان ہارون شنواری نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ انتخابات سے متعلق قوانین کے مطابق ووٹر فہرست میں اندارج کے لیے قومی شناختی کارڈ کا ہونا ضروری ہے۔
’’ہم نے سول سوسائٹی سے بھی بات کی ہے اور سیاسی جماعتوں سے بھی کہا ہے کہ وہ اس کام میں الیکشن کمیشن کا ساتھ دیں۔‘‘
ملک میں شفاف انتخابات کے لیے کام کرنے والے ایک غیر سرکاری ادارے ’فری اینڈ فئیر الیکشن نیٹ ورک‘ یعنی فافن کے ظہیر خٹک کہتے ہیں کہ اس کام میں سب کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔
’’خواتین کے ووٹر فہرستوں میں اندارج کے نہ ہونے کا الزام کسی ایک ادارے یا شخصیت پر عائد نہیں کیا جا سکتا۔‘‘
کمیشن کے ایک بیان کے مطابق خصوصی مہم میں پنجاب کے 27، سندھ کے 24، خیبر پختونخوا کے 16، صوبہ بلوچستان کے 11 اضلاع کے علاوہ وفاقی دارالحکومت میں خواتین ووٹروں کا اندارج کیا جائے گا۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ کئی خواتین کے لیے شناختی کارڈ کے حصول کے عمل کو سہل بنایا جانا چاہیے۔