امریکہ سے وطن واپسی پر اتوار کو اسلام آباد میں ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وز یر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ 19 اگست کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے خصوصی اجلاس کے ذریعے دنیا کو بہتر طور پر یہ جاننے کا موقع ملا کہ پاکستان میںآ نے والے تاریخی سیلاب سے کس قدر وسیع پیمانے پر جانی اور مالی نقصانات ہو ئے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ یہی وجہ ہے کہ سیلاب زدگان کی امداد کے لیے اقوام متحدہ کی 46 کروڑ ڈالر کی اپیل کے جواب میں اب تک پاکستان کو دی جانے والی یاملنے والی مجموعی بین ا لاقوامی مالی امداد 81 کروڑ ڈالر سے بھی تجاوز کر گئی ہے جو ایک بہت ہی حوصلہ افزاء پیش رفت ہے اور اس تاثر کے برعکس ہے کہ عالمی برادری پاکستان کو امداد دینے سے ہچکچا رہی ہے۔
بھارت سے 50 لاکھ ڈالر کی امداد کو قبول کرنے پر حکومت پاکستان پر کی جانے والی تنقید کا جواب دیتے ہوئے شاہ محمود قریشی نے کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان دنیا سے اپیل کر رہا ہے کہ انسانی جانوں کو بچانے کے لیے اُس کی مدد کی جائے اور اس نے ایسا ہی کیا ہے۔ انھوں نے کہا اُن کے خیال میں اس سلسلے میں بھارت نے بھی ا مداد کی پیشکش کی جسے قبول کرنے پرپاکستان کوکوئی افسوس یا ندامت نہیں ہے۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ ایک امریکہ، یورپ اور مغربی ممالک کی معیشتیں ان دنوں خود مشکلات کا شکار ہیں لیکن اس کے باوجود پاکستان کے ساتھ یکجہتی کا یہ اظہار ایک انتہائی حوصلہ افزا بات ہے اور پاکستان اس کے لیے بین الاقوامی برادری کا شکر گزار ہے۔
انھوں نے کہا کہ سیلاب سے ہونے والی تباہ کاریوں کا سلسلہ ابھی جاری ہے اس لیے اس وقت بھی یہ کہنا مشکل ہو گا کہ مجموعی طور پر پاکستان کو کیا مالی نقصانات ہوئے ہیں۔ وزیر خارجہ قریشی نے کہا کہ جنوبی پنجاب میں کپاس کی فصل کو بہت زیادہ نقصان پہنچا ہے اور محتاط اندازوں کے مطابق کپاس کی 20 لاکھ گانٹھیں سیلابی پانی میں بہہ گئی ہیں جس سے پاکستان ایک کروڑ 40 لاکھ کپاس کی گانٹھوں کا سالانہ ہدف حاصل نہیں کر پائے گا۔