ماہرین لسانیات کا کہنا ہے کہ ختم ہونے والی زبانوں کو جدید طریقوں سے ریکارڈ کرکے محفوظ بنایا جانا چاہیے تاکہ مستقبل میں ان زبانوں اور ان سے منسلک تہذیب و تمدن کو سمجھنے میں مدد لی جاسکے۔
اسلام آباد —
زبان ایک ذریعہ اظہار ہے جو کسی بھی سماج میں ایک دوسرے سے منسلک رہنے کے لیے اتنی ہی ضروری ہے جتنا کہ دیگر معاشرتی لوازمات۔ معاشرتی تنوع میں بھی بلاشبہ زبان کا بہت اہم کردار ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ بہت سی نئی زبانیں وجود پاتی ہیں تو اسی طرح بہت سے زبانیں ختم بھی ہوتی جارہی ہیں۔
دنیا بھر میں 21 فروری 2000ء سے ہر سال مادری زبانوں کا عالمی دن منایا جاتا ہے جس کا مقصد مادری زبان اور اس سے وابستہ ثقافتی و تہذیبی پہلوؤں کو اجاگر کرنا ہے۔
پاکستانی ماہرین لسانیات کے مطابق ملک میں مختلف لہجوں کے فرق سے 74 زبانیں بولی جاتی ہیں۔
مادری زبان کسی بھی شخص کی وہ زبان ہوتی ہے جو اسے ورثے میں ملتی ہے یعنی جس گھرانے اور خاندان میں وہ پیدا ہوتا ہ ےوہ بچے کی مادری زبان کہلاتی ہے۔
ماہرین لسانیات کا کہنا ہے کہ فی زمانہ بہت سی زبانیں ختم ہوتی جا رہی ہیں جس کی وجہ ان کے بولنے والے خود ہیں جو بتدریج ان زبانوں کے استعمال کو کم کرتے جا رہے ہیں اور پھر یوں یہ زبانیں اپنا اصل اسلوب ختم کرتے ہوئے کسی دوسری زبان میں منتقل ہوجاتی ہیں۔
مادری زبان کی اہمیت کے بارے میں لسانیات کے ماہرین کہتے ہیں کہ انسانی کے فطری احساس کی تربیت کے لیے یہ بہت ضروری ہے۔ لیکن ماہرین کے بقول بہت سی مادری زبانیں بھی وقت کے ساتھ ساتھ ختم ہوتی جا رہی ہیں۔
قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد کے شعبہ لسانیات کی سربراہ ڈاکٹر مبینہ طلعت اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ یہ ضروری نہیں جو زبان ماں یا باپ کی ہو بچے کو بھی اسی کی تربیت دی جائے۔
’’مثال کے طور پر ماں کی زبان پنجابی ہے یا اردو ہے تو وہ اپنے بچے کو ماں جی سکھانے کی بجائے موم یا باپ کو ابا جی یا ابو کی بجائے ڈیڈی یا ڈیڈ سکھا رہے ہیں۔ تو آپ نے مادری زبان جو احساس کی تربیت کرتی ہے اس کو تبدیل کردیا اور اس کی تربیت کسی اور زبان میں کی۔‘‘
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ زبانوں کی بقا کے لیے ضروری ہے کہ ان کے استعمال کو جاری رکھا جائے۔
ڈاکٹر مبینہ نے کہا کہ ختم ہونے والی زبانوں کو جدید طریقوں سے ریکارڈ کرکے محفوظ بنایا جانا چاہیے تاکہ مستقبل میں ان زبانوں اور ان سے منسلک تہذیب و تمدن کو سمجھنے میں مدد لی جاسکے۔
دنیا بھر میں 21 فروری 2000ء سے ہر سال مادری زبانوں کا عالمی دن منایا جاتا ہے جس کا مقصد مادری زبان اور اس سے وابستہ ثقافتی و تہذیبی پہلوؤں کو اجاگر کرنا ہے۔
پاکستانی ماہرین لسانیات کے مطابق ملک میں مختلف لہجوں کے فرق سے 74 زبانیں بولی جاتی ہیں۔
مادری زبان کسی بھی شخص کی وہ زبان ہوتی ہے جو اسے ورثے میں ملتی ہے یعنی جس گھرانے اور خاندان میں وہ پیدا ہوتا ہ ےوہ بچے کی مادری زبان کہلاتی ہے۔
ماہرین لسانیات کا کہنا ہے کہ فی زمانہ بہت سی زبانیں ختم ہوتی جا رہی ہیں جس کی وجہ ان کے بولنے والے خود ہیں جو بتدریج ان زبانوں کے استعمال کو کم کرتے جا رہے ہیں اور پھر یوں یہ زبانیں اپنا اصل اسلوب ختم کرتے ہوئے کسی دوسری زبان میں منتقل ہوجاتی ہیں۔
مادری زبان کی اہمیت کے بارے میں لسانیات کے ماہرین کہتے ہیں کہ انسانی کے فطری احساس کی تربیت کے لیے یہ بہت ضروری ہے۔ لیکن ماہرین کے بقول بہت سی مادری زبانیں بھی وقت کے ساتھ ساتھ ختم ہوتی جا رہی ہیں۔
قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد کے شعبہ لسانیات کی سربراہ ڈاکٹر مبینہ طلعت اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ یہ ضروری نہیں جو زبان ماں یا باپ کی ہو بچے کو بھی اسی کی تربیت دی جائے۔
’’مثال کے طور پر ماں کی زبان پنجابی ہے یا اردو ہے تو وہ اپنے بچے کو ماں جی سکھانے کی بجائے موم یا باپ کو ابا جی یا ابو کی بجائے ڈیڈی یا ڈیڈ سکھا رہے ہیں۔ تو آپ نے مادری زبان جو احساس کی تربیت کرتی ہے اس کو تبدیل کردیا اور اس کی تربیت کسی اور زبان میں کی۔‘‘
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ زبانوں کی بقا کے لیے ضروری ہے کہ ان کے استعمال کو جاری رکھا جائے۔
ڈاکٹر مبینہ نے کہا کہ ختم ہونے والی زبانوں کو جدید طریقوں سے ریکارڈ کرکے محفوظ بنایا جانا چاہیے تاکہ مستقبل میں ان زبانوں اور ان سے منسلک تہذیب و تمدن کو سمجھنے میں مدد لی جاسکے۔