ان کا کہنا تھا کہ عوام کو معلومات تک رسائی کے حق سے محروم رکھا جا رہا ہے جو کہ مناسب بات نہیں ہے۔
اسلام آباد —
پاکستان میں وڈیو شیئرنگ کی معروف ویب سائیٹ "یوٹیوب" پر پابندی کو ڈیڑھ سال کا عرصہ گزر چکا ہے اور متعلقہ حکام کی طرف سے یہ پابندی جلد ختم کرنے کے متعدد بیانات کے باوجود انٹرنیٹ صارفین کی قانونی طریقے سے اس سائیٹ تک رسائی ممکن نہیں ہوسکی ہے۔
پیر کو ایوان بالا یعنی سینٹ کی فنکشنل کمیٹی برائے انسانی حقوق نے ایک قرارداد متفقہ طور پر منظور کی جس میں حکومت سے یوٹیوب تک رسائی پر پابندی کے خاتمے کا کہا گیا۔
اس کمیٹی میں شامل سینیٹر نسرین جلیل نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ "ممبران کی رائے تھی کہ یوٹیوب معلومات کا ایک ذریعہ ہے اور اس پر پابندی لگے رہنا عوام کے ساتھ زیادتی ہے یہ تو ایسا ہی ہے کہ آپ کے پاس لائبریری ہو اور آپ اس سے استفادہ نہ کرسکیں۔"
ان کا کہنا تھا کہ عوام کو معلومات تک رسائی کے حق سے محروم رکھا جا رہا ہے جو کہ مناسب بات نہیں ہے۔
17 ستمبر 2012ء کو پاکستان میں یوٹیوب تک رسائی پر پابندی اس تناظر میں عائد کی گئی تھی کہ اسلام مخالف ایک فلم کے بعض مناظر اس ویب سائیٹ پر جاری ہونے سے دنیا کے مختلف ممالک کی طرح پاکستان میں بھی بڑے پیمانے پر مظاہرے شروع ہوگئے تھے۔
ان مظاہروں میں 20 سے زائد افراد ہلاک جب کہ مظاہرین کی طرف سے جلاؤ گھیراؤ سے املاک کو اربوں روپے کا نقصان ہوا تھا۔
حکومت میں شامل عہدیدار یہ کہہ چکے ہیں کہ کسی بھی غیر اخلاقی یا ہتک آمیز مواد کو انٹرنیٹ پر روکنے کے لیے سافٹ ویئرز پر کام ہو رہا ہے اور ان کے قابل عمل ہونے کے بعد یوٹیوب تک رسائی بحال کر دی جائے گی۔
انٹرنیٹ کے صارفین اس پابندی کو یہ کہہ کر بلاجواز قرار دیتے ہیں کہ متعدد ایسے سافٹ ویئر موجود ہیں جن کی مدد سے یوٹیوب تک باآسانی رسائی ہوسکتی ہے اور لوگ یہ غیر قانونی طریقہ استعمال کر رہے ہیں۔
پیر کو ایوان بالا یعنی سینٹ کی فنکشنل کمیٹی برائے انسانی حقوق نے ایک قرارداد متفقہ طور پر منظور کی جس میں حکومت سے یوٹیوب تک رسائی پر پابندی کے خاتمے کا کہا گیا۔
اس کمیٹی میں شامل سینیٹر نسرین جلیل نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ "ممبران کی رائے تھی کہ یوٹیوب معلومات کا ایک ذریعہ ہے اور اس پر پابندی لگے رہنا عوام کے ساتھ زیادتی ہے یہ تو ایسا ہی ہے کہ آپ کے پاس لائبریری ہو اور آپ اس سے استفادہ نہ کرسکیں۔"
ان کا کہنا تھا کہ عوام کو معلومات تک رسائی کے حق سے محروم رکھا جا رہا ہے جو کہ مناسب بات نہیں ہے۔
17 ستمبر 2012ء کو پاکستان میں یوٹیوب تک رسائی پر پابندی اس تناظر میں عائد کی گئی تھی کہ اسلام مخالف ایک فلم کے بعض مناظر اس ویب سائیٹ پر جاری ہونے سے دنیا کے مختلف ممالک کی طرح پاکستان میں بھی بڑے پیمانے پر مظاہرے شروع ہوگئے تھے۔
ان مظاہروں میں 20 سے زائد افراد ہلاک جب کہ مظاہرین کی طرف سے جلاؤ گھیراؤ سے املاک کو اربوں روپے کا نقصان ہوا تھا۔
حکومت میں شامل عہدیدار یہ کہہ چکے ہیں کہ کسی بھی غیر اخلاقی یا ہتک آمیز مواد کو انٹرنیٹ پر روکنے کے لیے سافٹ ویئرز پر کام ہو رہا ہے اور ان کے قابل عمل ہونے کے بعد یوٹیوب تک رسائی بحال کر دی جائے گی۔
انٹرنیٹ کے صارفین اس پابندی کو یہ کہہ کر بلاجواز قرار دیتے ہیں کہ متعدد ایسے سافٹ ویئر موجود ہیں جن کی مدد سے یوٹیوب تک باآسانی رسائی ہوسکتی ہے اور لوگ یہ غیر قانونی طریقہ استعمال کر رہے ہیں۔