پاکستان کی ابھرتی ہوئی اداکارہ، لکھاری اور ہدایت کارہ امر خان کا کہنا ہے کہ انہیں اپنی والدہ کی وجہ سے کوئی کردار نہیں ملا۔
اداکارہ امر خان حال ہی میں جیو انٹرٹینمنٹ کے ڈرامہ سیریل 'قیامت' میں جلوہ گر ہوئی ہیں جس میں انہوں نے ثمرہ نامی ایک مظلوم لڑکی کا کردار ادا کیا ہے۔
وائس آف امریکہ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے امر خان کا کہنا تھا کہ ڈرامہ سیریل 'قیامت' میں مرنے کے بعد ثمرہ 'امر' ہو گئی۔
ان کے بقول "ثمرہ کا کردار آن اسکرین مرنے کے بعد بھی لوگوں کو اس لیے یاد ہے کیوں کہ وہ اس کی اذیت اور اس پر ہونے والے مظالم سے جُڑے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ میرا نہیں خیال کہ اگر ثمرہ زندہ رہتی تو اس قسم کا ردعمل آتا۔"
انہوں نے کہا کہ جب ٹی وی پر ثمرہ کے مرنے کا سین چل رہا تھا تو انہوں نے ایک ویڈیو بنائی جس میں ان کی ماں کی آنکھوں میں آنسو تھے۔
امر خان نے بتایا کہ اس ویڈیو کے وائرل ہونے کے بعد انہیں ویوز اور کمنٹس تو ملے ہی لیکن لوگوں نے انہیں لمبی عمر کی دعائیں بھی دیں۔
اداکارہ نے کہا کہ میں تو یہی کہوں گی کہ اس محبت کے بعد میں انہیں اپنا فین نہیں بلکہ فیملی سمجھتی ہوں۔
Your browser doesn’t support HTML5
'ساتھی اداکار کے اچھے ہونے سے آپ کا کام نکھر کر آتا ہے'
'قیامت' سے قبل امر خان نے 'بیلا پور کی ڈائن'، گھگی' اور 'دل گمشدہ' میں بھی اداکاری کے جوہر دکھائے ہیں۔
امر خان کے بقول 'بیلاپور کی ڈائن' میں جہاں انہوں نے کاسٹ اور ناظرین کو ڈائن بن کر ڈرایا وہیں انہیں لیجنڈری شکیل صاحب کے ساتھ بھی کام کرنے کا موقع ملا۔
انہوں نے بتایا کہ ایک سین میں انہیں شکیل صاحب کو گریبان سے پکڑ کر ان پر چلانا تھا اور شکیل صاحب نے ان کی ہچکچاہٹ کو دیکھ کر انہیں اعتماد دیا۔
امر خان نے کہا کہ میں اپنی اس پرفامنس کا سہرا ان ہی کو دیتی ہوں، کبھی کبھی آپ کے ساتھی اداکار اتنے اچھے انسان ہوتے ہیں کہ آپ کا کام بھی نکھر کر سامنے آتا ہے۔
ان کے بقول ایک اداکارہ کے لیے ضروری ہے کہ وہ ایسے کردار بھی کرے جو صرف ایک خاص طبقے تک پہنچنے کے بجائے عوام الناس تک پہنچیں۔
انہوں نے بتایا کہ جو شہرت، جو مقام اور جو عزت انہیں 'قیامت' کے بعد ملی وہ کسی اور ڈرامے سے نہیں ملی۔
امر خان کا کہنا ہے کہ ہمارے ملک میں گھریلو تشدد کا تناسب بہت زیادہ ہے اسی لیے ایسے مرد کو، جو اپنی بیوی پر تشدد کرتا ہے، ہمیشہ ڈرامے میں ولن ہی دکھایا جاتا ہے۔ ساتھ ساتھ یہ بھی دکھایا جاتا ہے کہ مار کھانے والی عورت بھی ٹھیک نہیں کر رہی اور اسے ظلم کے خلاف کھڑا ہونا چاہیے۔
اداکارہ کا کہنا ہے کہ "بطور اداکار میری ذمہ داری ہے کہ میں خود جس چیز کے خلاف ہوں اس کے خاتمے کے لیے بھی اپنا حصہ ڈالوں، چاہے اس کے لیے مجھے لوگوں کو وہ عورت بن کر دکھانا پڑے جو ہمارے معاشرے میں ظلم سہتی ہے اور جن کا انجام بھی اچھا نہیں ہوتا۔"
'میں نے اپنی ماں کو چیک کے لیے لڑتے دیکھا ہے'
اداکارہ امر خان کا تعلق ایک فلمی گھرانے سے ہے، ان کے نانا مرحوم محمد حسین عرف ساجن بابو 60 اور 70 کی دہائی میں فلم ساز تھے جب کہ ان کی والدہ فریحہ جبین کا شمار ٹی وی کی مقبول اداکاراؤں میں ہوتا ہے۔
امر خان کا کہنا ہے کہ تیسری نسل ہونے کے باوجود انہیں اپنے کریئر کو خود ہی آگے بڑھانا پڑا۔
انہوں نے کہا کہ مجھے اس فیلڈ میں آنے کا شوق اپنی والدہ کو دیکھ کر تو ہوا لیکن ان کی وجہ سے مجھے نہ کوئی کردار ملا اور نہ کوئی بریک کیوں کہ وہ ایک اچھی ورسٹائل اداکارہ تھیں، اسٹار نہیں۔
انہوں نے کہا کہ آج میں اپنی ماں کو اپنے چیک کے لیے فون پر لوگوں سے بحث کرتا دیکھتی ہوں تو مجھے افسوس ہوتا ہے۔ انہوں نے عزت کمائی لیکن دولت نہیں اور ان کی ہی عزت کی وجہ سے انڈسٹری کے لوگ مجھ سے پیار کرتے ہیں جب کہ مجھے فلم میکنگ پڑھانے میں بھی والدہ کا کمال ہے۔
فلم 'دم مستم' کا آئیڈیا سب سے پہلے واسع چوہدری نے سنا
بحیثیت مصنفہ اور اداکارہ امر خان کی ڈیبیو فلم 'دم مستم' تکمیل کے آخری مراحل میں ہے۔
اس فلم میں امر خان اندرون لاہور سے تعلق رکھنے والی لڑکی کا کردار ادا کر رہی ہیں جو اپنے خوابوں کو پورا کرنے کے لیے سخت محنت کرتی ہے۔
فلم 'دم مستم' میں امر خان کے ساتھ اداکار عمران اشرف مرکزی کردار ادا کر رہے ہیں جب کہ اس کی ہدایت کاری احتشام الدین نے دی ہے اور فلم معروف اداکار عدنان صدیقی اور اختر حسنین نے پروڈیوس کی ہے۔
SEE ALSO: پاکستان اور بھارت کی فیشن انڈسٹری سے اداکاری کی دنیا میں نام کمانے والے فن کاران کے بقول 2016 میں کراچی شفٹ ہوتے وقت میں 'دم مستم' تقریباً لکھ چکی تھی اور اس کی کہانی سب سے پہلے واسع چوہدری نے سنی جو اُس وقت ہم ٹی وی کے فلم ڈپارٹمنٹ کے جنرل مینجر تھے اور وہ میری تھیسس شارٹ فلم دیکھ چکے تھے۔
انہوں نے کہا کہ واسع چوہدری خود ایک اچھے رائٹر ہیں اس لیے ان کی حوصلہ افزائی نے مجھے اعتماد دیا۔ چوں کہ میں فلم کے ہر شعبے میں خود منسلک ہونا چاہتی تھی اس لیے میں نے فلم کسی پروڈیوسر کو نہیں دی۔
اداکارہ نے بتایا کہ تین برس کی محنت اور کئی پروڈیوسرز سے ملنے کے بعد عدنان صدیقی نے فلم پروڈیوس کرنے کا فیصلہ کیا اور امید ہے کہ جلد کرونا کی وجہ سے بند سنیما گھر کھلیں گے اور 'دم مستم' وہی لوگ اسی میڈیم پر دیکھیں جس کے لیے یہ بنائی گئی ہے۔
علاوہ ازیں امر خان نے کہا کہ اگر انہیں 10 برس پہلے کی امر خان مل جائے تو وہ اسے مشورہ دینے کے بجائے اس سے بہت کچھ لینا چاہیں گی۔
ان کے بقول 10 برس پہلے کی امر بہت معصوم، سچی اور بہت صاف گو ہوا کرتی تھی، اگر میری اس سے ملاقات ہو گئی تو بجائے اسے کوئی مشورہ دینے کے وہ اس سے اس کی ساری خوبیاں واپس لینا چاہیں گی۔