|
جنگ سے تباہ حال غزہ میں جہاں لوگوں تک بنیادی ضروری امداد پہنچانا انتہائی دشوار ہے، امریکی ریاست ورجینیا میں دو پاکستانی امریکی خواتین کی ایک تنظیم وہاں کے لوگوں کو خوراک اور بچوں کو جنگ کے ٹراما سے نکالنے کےلیے کھیل ،تفریح اور آرٹ تھیراپی کے مواقع فراہم کر رہی ہے۔
یتیم بچوں کو کھیل کے میدان تعمیر کرنے کے مشن میں مصروف گلوبل فلاحی ادارے بلوم چیریٹی کی فاؤنڈر دونوں بہنوں نے اپنے اس مشن کو ایک انتہائی منفرد اور تخلیقی طریقے سے غزہ تک بڑھایا ہے۔
وائس آف امریکہ سے فون پر بات کرتے ہوئے چیریٹی کی کو فاؤنڈر عظمیٰ احمد نے کہا کہ “بچوں کا حق ہے کہ ان کا بچپن ہنستے کھیلتے اورخوشی کے ساتھ گزرے اور دنیا بھر میں اس حق سے محروم بچوں کو ہنسنے کھیلنے، خوش رکھنے کے لیے کھیل کے میدان فراہم کرنا ہمارے ادارے بلوم چیریٹی کا بنیادی مشن ہے اور یہی مشن ہمیں جنگ سے تباہ حال غزہ کے بچوں تک لے گیا ہے۔
بلوم چیریٹی کی کو فاؤنڈر اور عظمیٰ احمد کی بہن امینہ شمس نے کہا کہ غزہ جنگ شروع ہونے کے پہلے دن سے ہمیں اندازہ ہو گیا تھا کہ ہمیں اس پر کام کرنا ہو گا۔
لیکن ہمارے سامنے پہلا سوال یہ تھا کہ ہماری آرگنائزیشن تو صرف یتیم خانوں میں بچوں کو کھیل کود کی سہولیات پہنچانے اور ان کی مینٹل ہیلتھ پر کام کرتی ہے تو غزہ میں بمباری اور تباہی کے ماحول میں ہم کیسے اپنا مشن انجام دے سکتے ہیں اور یہ کہ غزہ میں جائے بغیر ہم یہ کام کر کیسے سکتے ہیں؟
لیکن ہمیں یہ یقین تھا کہ اگر ہمیں وہاں پہنچنے کا کوئی راستہ مل گیا تو ہم ان بچوں کی مینٹل ہیلتھ اور انہیں صدمے سے نکالنے کے لیے کچھ نہ کچھ ضرور کر سکتے ہیں, اور پھر یہ راستہ مل ہی گیا۔
’ہیل فلسطین‘
امینہ شمس نے کہا کہ ہمارا رابطہ اوہائیو میں فلسطینیوں کی مدد کے لیے حال ہی میں قائم کی گئی ایک تنظیم " ہیل فلسطین " سے ہوا جو غزہ کے زخمیوں اور اعضا کے جلنے اور کٹنے کے شکار مریضوں کو علاج کے لیے مصر کے راستے ان کے رشتے داروں کے ہمراہ امریکہ لاتی ہے۔ تو یہی ادارہ ہمارے لیے غزہ کے لوگوں اور بچوں سے رابطے کا پہلا ذریعہ بنا۔
امینہ شمس نے مزید کہا کہ ہم نے اس ادارے کے ساتھ ایک ایم او یو سائن کیا جس کے تحت ہم نے ہیل کی جانب سے ان مریضوں کے میڈیکل علاج کے بعد انہیں نفسیاتی علاج فراہم کرنا شروع کیا۔ اور اس وقت بلوم فلاڈیلفیا میں غزہ سے پہنچنے والی ایک ماں اور بیٹی، نیو یارک سٹی میں دو بہنوں، اور بوسٹن میں دو بھائیوں کو نفسیاتی علاج فراہم کر ر ہا ہے۔ یہ سب مریض جلنے اور اعضا کے کٹنے جیسے زخموں میں مبتلا ہو کر امریکہ پہنچے تھے۔
بلوم غزہ کے بچوں تک کیسے پہنچی؟
ہمارے اس سوال کا جواب عظمیٰ نے دیا انہوں نےکہا کہ ہم بذات خود غزہ نہیں جا سکے لیکن ہم اس ادارے کے ذریعے وہاں تک پہنچے جس کا عملہ غزہ میں موجود تھا۔ واشنگٹن میں فلسطینیوں کے لیے کام کرنے والے ایک میڈیا گروپ ’الحیا ‘کے جرنلسٹس اس وقت غزہ میں مختلف فلاحی اداروں کے ساتھ مل کر امدادی سرگرمیاں انجام دے رہے ہیں۔
ہم نے غزہ میں بچوں کی مینٹل ہیلتھ سے متعلق اپنے پراجیکٹ کے لیے اس ادارے کو فنڈز فراہم کیے جس نے غزہ میں موجود اپنی صحافیوں کی ایک ٹیم کے ذریعے غزہ کے پناہ گزیں کیمپوں میں ہمارے تفریحی پراجیکٹس پر عمل درآمد کیا۔
ان پراجیکٹس میں بچوں کے لیے مقامی میوزیشنز، سنگرز ، اور کلاؤنز کو ہائر کر کے ان کے لیے تفریحی پروگرام ترتیب دیے جا رہےہیں جب کہ آرٹسٹوں اور آرٹ ٹیچرز کی مدد سے ان بچو ں کے لیے آرٹ کلاسز یا آرٹ کے پروگرام ترتیب دے کر تھیراپی فراہم کی جا رہی ہے۔
عظمیٰ نے بتایا کہ فروری 2024 میں بلوم نے رفح اور جنوبی غزہ کے مختلف پناہ گزین کیمپوں میں سائیکو سوشل سپورٹ پروگرام کروانے شروع کیے۔ چار گھنٹوں پر محیط ان پروگراموں کے ذریعے کھیلوں آرٹ تھیراپی، میوزیشنز اور مسخروں نے ایسے متعدد لمحات فراہم کیے جن سے انتہائی ہولناک صدمات یا ٹراما کا سامنا کرنے والے بچوں اور ان کے خاندانوں کو ہنسنے مسکرانے اور کچھ سیکھنے کے ساتھ ساتھ امید اور صدموں سے بحالی کے مواقع فراہم ہوئے۔
پروگراموں کی تصاویر اور ویڈیوز
ویڈیوز اور تصاویر کے بارے میں بات کرتے ہوئے امینہ نے کہا کہ پروفیشنل جرنلسٹ گروپ نے غزہ کے مختلف کیمپوں میں نہ صرف ایونٹس ترتیب دیے بلکہ واٹس ایپ پر ایونٹس کے ختم ہوتے ہی ہمیں ان کی تصاویر، ویڈیوز اور فوٹیجز فراہم کیے۔
لیکن کیا غزہ میں انٹرنیٹ کی سہولت موجود ہے ؟ ہمارے اس سوال پر انہوں نے بتایا کہ جن کیمپوں میں وہ پروگرام ترتیب دیے گئے وہاں انٹرنیٹ کنکشن اکثر موجود ہوتا تھا۔
امینہ شمس نے کہا کہ ان جرنلسٹوں کی بھیجی ہوئی ویڈیوز اور تصاویر میں ہم نے دیکھا کہ بمباری، تباہی ،اور ہلاکتوں کے دہلا دینے والے ماحول میں بھی موسیقی اور تفریحی ایونٹس کے دوران مایوسی اور صدمے سے بے حال بچوں کے چہرے کس طرح پھول کی طرح کھل جاتے تھے، اور ان کھلتے ہوئے چہروں کو دیکھ کر ان کے والدین اور اردگرد کے پریشان حال لوگوں کے چہروں پر بھی رونق آ جاتی تھی۔
“ ہم نے ان تصویروں اور ویڈیوز میں ان بچوں کے والدین کی آنکھوں میں اس امید کو زندہ ہوتے دیکھا کہ ان کی زندگیوں میں خوشیاں واپس آ سکتی ہیں۔“عظمیٰ نے کہا۔
عظمیٰ نے کہا“ یہی وہ لمحات تھے جب ہم نے اپنے مشن کو آگے بڑھایا اور ان بچوں کے ساتھ ساتھ ان کے والدین اور ارد گرد کے لوگوں کی خوشیوں کے لیے بھی کچھ کرنے کا سوچا ۔ اور ان سب کے لیے خوراک کی فراہمی کا اپنا ایک اور پراجیکٹ "تیکیہ” شروع کیا۔“
تیکیہ کیا ہے ؟
عظمیٰ احمد نے بتایا کہ تیکیہ غزہ کی مقامی زبان میں کمیونٹی کچن کا نام ہے جسے ہم لنگر کہہ سکتے ہیں۔ ہم نے الحیا کے جرنلسٹس کی مدد سے مختلف پناہ گزین کیمپوں میں ان بچوں اور ان کے اہل خانہ کے لیے لنگر یا تیکیہ شروع کر دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ان لنگروں کو چلانا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ اس وقت وہاں مقامی مارکیٹوں میں بہت مہنگائی ہے اس لیے جرنلسٹوں کو مقامی مارکیٹوں سے اور دور دراز فارمز سے جو سبزیاں، دالیں وغیرہ مل جاتی ہیں وہی پکا کر تقسیم کر دی جاتی ہیں۔ شمالی غزہ میں 200 لوگوں کے لئے ایک تیکیہ 1300 ڈالرز اور رفح میں 800 ڈالر میں تیار ہوتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ اتوار کو ادارے نے شمالی غزہ کی پٹی میں بیت الہیہ اور جبالیہ شہروں کے اندر بے گھر لوگوں کے کیمپوں میں لگ بھگ 200 خاندانوں کو آلو اور گاجروں کے کھانے فراہم کیے ۔ اور اب وہ ہر ہفتے شمالی اور جنوبی غزہ میں لگ بھگ دو سو خاندانوں کو کھانے فراہم کریں گے۔
اس کے علاوہ ہم غزہ کے دور دراز علاقوں میں جہاں امداد تک رسائی انتہائی مایوس کن ہے خوراک، پینے کے پانی اور بچوں کے لیے دودھ تقسیم کرنے کا سلسلہ شروع کر چکے ہیں۔
امینہ شمس نے بتایا کہ اس ماہ ہی بلوم نے شمالی غزہ اور رفح کے علاقے میں خوراک، پانی اور بچوں کے فارمولہ کی تقسیم کا پروگرام لانچ کیا۔
فنڈ ریزنگ
اس مقصد کے لیے فنڈز کہاں سے حاصل کرتی ہیں۔ وی او اے کے اس سوال پر انہوں نے کہا کہ ہم نے اس سلسلے میں انفرادی طور پر فنڈز اکٹھے کیے ہیں۔ ہمیں لوگ اپنے گھروں میں یا کمیونٹی سنٹرز میں بلاتے ہیں یا ہم انہیں کسی جگہ اکٹھا کرتے ہیں اور پھر اپنی پریذنیٹیشن دے کر فنڈ ریزنگ کرتے ہیں۔
عظمیٰ نے جو تین بچوں کی ماں اور اپنے شوہر کی لا فرم میں پیرا لیگل اسٹنٹ ہیں، بلوم چیریٹی کے آئندہ کے پروگراموں کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ غزہ کے بحران کے خاتمے تک ہم غزہ کے لوگوں اور بچوں کے لیے کام کرتے رہیں گے جس کے بعد ہم اپنے بنیادی مشن یعنی دنیا بھر کے یتیم خانوں میں بچوں کے لیے کھیل کے میدان تعمیر کرنے کا سلسلہ دوبارہ شروع کریں گے۔
بلوم چیریٹی کی کو فاؤنڈر امینہ شمس نے جو ایک تجربہ کار پبلک ہیلتھ کنسلٹنٹ اور سماجی اور صحت کے شعبے میں مساوات کی ایک علمبردار ہیں، بتایا کہ ہم پاکستان کے علاوہ دنیا بھر کے مختلف ملکوں کے یتیم خانوں میں بچوں کے لیے کھیل کے میدان تعمیر کرنے پر کام کر رہے ہیں جو ان کی مینٹل ہیلتھ کے لیے ایک اکسیر کا کام کر سکتے ہیں۔
لیکن بقول ان کے،" اس وقت ہمارا فوکس صرف اور صرف غزہ جنگ کے متاثرین پر ہے۔"
انہوں نے بتایا اس وقت بلوم فلاڈیلفیا میں غزہ سے پہنچنے والی ایک ماں اور بیٹی، نیو یارک سٹی میں دو بہنوں، اور بوسٹن میں دو بھائیوں کو نفسیاتی علاج فراہم کر رہا ہے۔ یہ سب مریض جلنے اور اعضا کے کٹنے جیسے زخموں میں مبتلا ہو کر امریکہ پہنچے تھے۔