سوشل میڈیا پر پاکستان انٹرٹینمنٹ انڈسٹری کے فن کاروں کی جانب سے ایک مہم کا آغاز کیا گیا ہے جس میں اداکار و اداکارائیں 'رائلٹی' کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
اس مہم کے تحت شوبز شخصیات سوشل میڈیا پر ہیش ٹیگ 'Give Royalties To Artists' کا استعمال کر رہے ہیں۔
فن کاروں کی جانب سے اس مہم کا آغاز اس وقت سامنے آیا ہے جب رواں ماہ کے آغاز میں پاکستان کی سینئر اداکارہ نائلہ جعفری کی ایک ویڈیو وائرل ہوئی تھی۔
ویڈیو میں نائلہ جعفری ٹی وی چینل اور پروڈکشن ہاؤسز کے مالکان سے اپنے ڈراموں کی رائلٹی کا تقاضا کر رہی تھیں۔
سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی اس ویڈیو میں اداکارہ نائلہ کو اسپتال کے بیڈ پر لیٹے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے، وہ کینسر جیسے موذی مرض میں مبتلا ہیں اور اپنا علاج کرا رہی ہیں۔
ویڈیو میں اداکارہ نائلہ کا کہنا تھا کہ "جب انہوں نے پی ٹی وی جوائن کیا تھا تو اس وقت ان کے ڈرامے دوبارہ نشر ہونے پر انہیں رائلٹی ملتی تھی اگرچہ وہ پیسے زیادہ نہیں تھے لیکن کسی کو برے بھی نہیں لگتے تھے۔"
گزشتہ چھ برسوں سے کینسر سے لڑنے والی اداکارہ کی اس بات پر آرٹسٹ کمیونٹی اکٹھا ہو گئی اور ہر کسی نے اپنی اور اپنے ساتھ کام کرنے والے فن کاروں کے لیے رائلٹی کے لیے آواز اٹھانا شروع کر دی ہے۔
رائلٹی کیا ہے؟ اور اس سے فن کاروں کو کیسے فائدہ پہنچتا ہے؟
اداکار فیصل قریشی نے اپنے انسٹاگرام اکاؤنٹ پر ایک ویڈیو شیئر کی ہے جس میں وہ لوگوں کو رائلٹی کے بارے میں آگاہ کر رہے ہیں۔
فیصل قریشی نے بتایا کہ ہم ڈراموں اور فلموں میں کام کرتے ہیں اور اس کے بعد وہ دنیا بھر میں 'ری رن' (دوبارہ یا متعدد بار) نشر ہوتے ہیں لیکن فن کاروں کو صرف ایک ہی مرتبہ ادائیگی ہوتی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ دنیا بھر میں بہت سے مصنف ہیں جب وہ کتاب لکھتے ہیں تو جتنی کتابیں فروخت ہوتی ہیں انہیں اس کی رائلٹیز آتی جاتی ہیں اور ایسا ہی سلسلہ اداکاروں کے ساتھ بھی ہوتا ہے اور ہم ابھی اداکار، رائٹرز، پروڈیوسرز، ٹیکنیشیئن اور تمام لوگوں کے لیے بات کر رہے ہیں۔
ویڈیو میں فیصل قریشی کا کہنا تھا کہ "رائلٹی ایک فن کار کی پینشن ہوتی ہے، خواہ وہ اداکار ہو، رائٹر ہو یا پھر پروڈیوسر۔"
انہوں نے بتایا کہ یہ پیسہ مشکل وقتوں میں کام آتا ہے جب ان کے پاس یا تو کام نہیں ہوتا یا پھر انہیں پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے۔
فیصل قریشی کے مطابق رائلٹی کے پیسوں کے ذریعے فن کار کا مستقبل محفوظ ہوتا ہے اگر یہ وقت پر ملے تو کوئی بھی اداکار یا پروڈیوسر دوسرا کاروبار شروع کرنے کے بارے میں بھی نہ سوچے۔
فن کاروں کو رائلٹی ادا کرنے کی مہم سے متعلق فلم اور ٹی وی کی معروف اداکارہ مہوش حیات کا کہنا تھا کہ "ان کے فیورٹ ٹی وی شو 'فرینڈز' کے اداکاروں نے شو کے دوران جتنے پیسے کمائے، رائلٹی کی مد میں وہ اب اس سے بھی زیادہ کما رہے ہیں۔"
اداکار عمیر رانا کا کہنا تھا کہ "رائلٹی اداکاروں کا حق ہے اسے امداد نہ سمجھا جائے۔"
اداکارہ صنم سعید، ہمایوں سعید، سید جبران اور عمران اشرف سمیت کئی فن کاروں نے 'گیو رائلٹی ٹو آرٹسٹس' کے ہیش ٹیگ کا استعمال کرتے ہوئے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر پوسٹس شیئر کی ہیں اور اپنے اور ساتھی فن کاروں کے لیے آواز اٹھائی ہیں۔
دوسری جانب اداکارہ ارمینہ رانا خان نے بھی ٹوئٹر پر لوگوں کو رائلٹی کی اہمیت سے آگاہ کرنے کے لیے ایک پوسٹ شیئر کی ہے۔
پاکستانی ٹی وی انڈسٹری میں مالی معاملات کا مسئلہ نیا نہیں
یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ کسی سینئر اداکار نے ٹی وی انڈسٹری کے مالی معاملات ہر آواز اٹھائی ہو۔ رواں برس اداکار و پروڈیوسر نعمان اعجاز نے ایک ویب انٹرویو میں ٹی وی چینل مالکان کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔
اس انٹرویو میں ہدایت کار رافع راشدی سے بات کرتے ہوئے نعمان اعجاز نے انکشاف کیا تھا کہ ان سمیت پاکستان میں کوئی ایسا اداکار اور پروڈیوسر نہیں جس کا معاوضہ نہ پھنسا ہو۔
نعمان اعجاز کا دعویٰ تھا کہ ایک چینل کو ان کے ساڑھے چار سے پانچ کروڑ روپے ادا کرنا ہیں جب کہ ایک اور چینل پر ڈھائی کروڑ روپے واجب الادا ہیں۔
دوسری جانب انٹرٹینمنٹ انڈسٹری کے اس اہم مسئلے پر پاکستان تحریک انصاف کے سینیٹر فیصل جاوید خان نے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ "دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی آرٹسٹوں کو رائلٹی ملنا چاہیے لیکن مناسب قانون سازی نہ ہونے کی وجہ سے ایسا نہیں ہوتا۔"
سینیٹر فیصل کا کہنا تھا کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت اس اہم مسئلے کو ایوان میں اٹھائے گی اور آرٹسٹ کمیونٹی کو اس پر جلد خوش خبری ملے گی۔
رائلٹی سے متعلق پروڈیوسرز کا کیا کہنا ہے؟
نام ظاہر نہ کرنے پر ایک پروڈیوسر نے بتایا کہ پاکستان ٹیلی ویژن اپنے زمانے میں اس لیے رائلٹی دے پاتا تھا کیوں کہ وہ سرکاری ادارہ تھا، اس کے پاس اپنا سیٹ اپ تھا اور وہ عوام سے لائسنس فیس اکٹھا کرتے تھے جب کہ فن کاروں کو معاوضہ بھی کم ہی ملتا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ پرائیوٹ چینل آنے کے بعد حالات مختلف ہو گئے ہیں اور فن کاروں کو اچھے پیسے ملتے ہیں۔ چینلز کا بزنس کمرشلز پر چلتا ہے۔
ان کے بقول پاکستان میں موجودہ ماڈل ہی غلط ہے اسے بہتر بنانے کے لیے قانون سازی کی ضرورت ہے۔ دنیا بھر میں جہاں آرٹسٹوں کو رائلٹی ملتی ہے وہیں ناظرین کو پروگرام دیکھنے کے لیے چینل سبسکرائب کرنا پڑتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان میں جہاں انٹرٹینمنٹ چینل ہی کم ہیں وہاں جب تک ایسا ماڈل نہیں آئے گا تب تک حالات بہتر نہیں ہوں گے۔
'رائلٹی کی بات وہاں اچھی لگتی ہے جہاں معاملہ برابری پر چلتا ہے'
ایک اور پروڈیوسر نے کہا کہ جس ملک میں ٹیکسوں کی بھرمار ہو، جہاں لوگوں کی نوکریاں ختم ہو رہی ہوں، جہاں حق دیر سے ملتا ہو وہاں رائلٹی کی بات کرنا قبل از وقت ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ دو برسوں میں میڈیا سے وابستہ کئی افراد کو اپنی نوکریوں سے ہاتھ دھونا پڑا اور جن کی نوکریاں بچ گئیں ان کی تنخواہیں کم کرنے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں تھا۔ ان مشکل حالات میں بھی فن کاروں کو ان کے معاوضے ایڈوانس میں دیے جاتے رہے ہیں۔
SEE ALSO: کیا اس بار بھی رمضان ڈرامہ سیریز گیم شوز کو مات دے سکیں گی؟ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں اگر آرٹسٹ دیر سے آتا ہے یا سرے سے سیٹ پر آتا ہی نہیں تو اس کا نقصان پروڈیوسر بھرتا ہے۔ رائلٹی کی بات وہاں اچھی لگتی ہے جہاں معاملہ برابری پر چلتا ہے۔
'رائلٹی کوئی بھیک یا مدد نہیں یہ آرٹسٹ کا حق ہوتا ہے'
دبئی میں مقیم پاکستانی انٹرٹینمنٹ صحافی مہوش اعجاز کا کہنا ہے کہ "پاکستان میں رائلٹی کا تصور ہی 'ایلیئن' ہے، نائلہ جعفری کی ویڈیو کے بعد لوگوں کا رائلٹی کے بارے میں بات کرنا تو اچھا ہے لیکن اس کا پایۂ تکمیل تک پہنچنا ناممکن لگتا ہے۔"
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پی ٹی وی کے زمانے میں نشر مکرر کا تصور کم تھا لیکن بعد میں جب پرائیوٹ چینل آئے اور ڈیجیٹل میڈیا نے سر اٹھایا تو اس پر قانون سازی کرنا یا کرانا چاہیے تھی۔
انہوں نے کہا کہ اداکارہ نائلہ جعفری کی ویڈیو کے بعد سوشل میڈیا پر تبصرے شروع ہو گئے ہیں اور لوگوں کو سمجھ آ رہی ہے کہ رائلٹی کوئی بھیک یا مدد نہیں ہوتی، یہ آرٹسٹ کا حق ہوتا ہے۔
SEE ALSO: 2020 کے ٹاپ پاکستانی ڈرامے: 'وہی گھریلو جھگڑے، متنازع معاشقے اور جرائم'ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان جیسے ملک میں جہاں نہ فن کاروں کی کوئی گلڈ (تنظیم) ہے، نہ ہی ان کے کوئی وکیل ہیں، جس کی دھونس چلتی ہے اس کا کام چل جاتا ہے۔
مہوش اعجاز کا کہنا ہے کہ پرائیوٹ ٹی وی کے آنے کے بعد اداکاروں کو چاہیے تھا کہ اپنے کنٹریکٹ میں ایک شق ڈلواتے جس سے ان کا مستقبل محفوظ ہوتا لیکن قانونی سمجھ بوجھ نہ ہونے کی وجہ سے انہوں نے ایسا نہیں کیا۔
ان کے بقول پاکستان میں صرف اداکار نہیں پس رہا بلکہ ڈرامہ بنانے، لکھنے اور پیسہ لگانے والے بھی پس رہے ہیں۔