پاکستان میں گزشتہ برس مارچ سے کرونا وبا کی وجہ سے سنیما ہالز بند ہیں جس کی وجہ سے انٹرٹینمنٹ انڈسٹری کو خاصا نقصان پہنچ رہا ہے۔ تاہم اب حکومت نے سنیا کھولنے کی اجازت دی ہے جس کے بعد اس انڈسٹری کی رونقیں بحال ہونے کی امید روشن ہو ئی ہے۔
گزشتہ ہفتے وفاقی وزیرِ اطلاعات فواد چوہدری نے ٹوئٹر پر نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر (این سی او سی) کا اعلامیہ شیئر کرتے ہوئے بتایا تھا کہ "حکومت نے اُن آٹھ شہروں میں پابندیوں میں نرمی کا فیصلہ کیا ہے جہاں ویکسی نیشن کا تناسب 40 فی صد سے زیادہ رہا ہے۔"
فواد چوہدری کے مطابق راولپنڈی اور اسلام آباد سمیت آٹھ شہروں میں سنیما کھولنے کی اجازت دے دی ہے۔
چالیس فی صد ویکسی نیشن کے تناسب والے شہروں میں کوئٹہ اور پشاور کے علاوہ پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کے چار شہر بھی شامل ہیں۔
وفاقی وزیرِ اطلاعات کا کہنا تھا کہ انہیں امید ہے کہ لاہور اور کراچی کی انتظامیہ ویکسی نیشن ڈرائیو کو بڑھائیں گے تا کہ آئندہ دس روز میں ان شہروں کے سنیما بھی کھل سکیں۔
حکومت نے جن شہروں میں پابندیوں میں نرمی کا فیصلہ کیا ہے وہاں سنیما تو ہیں لیکن ان کی تعداد کم ہے۔
پاکستان کے بیورو آف اسٹیٹس ٹکس کے مطابق ملک میں سنیما کی تعداد بڑھنے کے بجائے کم ہو رہی ہے۔
سن 2008 اور 2009 کے مالی سال کے دوران جہاں ملک میں سینما گھروں کی تعداد 203 تھی وہیں اب یہ تعداد کم ہو کر 72 ہو گئی ہے، جس میں ملٹی پلیکس سنیما بھی شامل ہیں۔
اس وقت پاکستان میں سنیما اسکرین کی تعداد پڑوسی ممالک سے کم ہے۔
'سنیما سے متعلق فیصلہ کرنے کے لیے اس کا ماڈل سمجھنا ہوگا'
فلم ڈسٹری بیوٹر اور کراچی کے ایٹریم اور اسلام آباد کے سینٹارس سنیما کے مالک ندیم مانڈوی والا نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ سنیما کھولنے کی اجازت دینے کا حکومتی فیصلہ خوش آئند ہے لیکن اسے سنیما کا ماڈل سمجھنا ہو گا۔
انہوں نے کہا کہ کوئی بھی فلم ڈسٹری بیوٹر صرف راولپنڈی اور اسلام آباد کے لیے فلم امپورٹ نہیں کرے گا۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت کے فیصلے کے باوجود جڑواں شہروں میں کوئی سنیما نہیں کھلا۔
ندیم مانڈوی والا کا کہنا تھا کہ سنیما میں جو پروڈکٹ (فلم) دکھائی جاتی ہے اس پر مالکان کا کوئی ہاتھ نہیں ہوتا اور انہیں ڈسٹری بیوٹر کے ذریعے فلمیں ملتی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہالی وڈ کی فلمیں پاکستان میں تو لگ جاتی ہیں لیکن ان کے پیچھے ایک پروسیس ہوتا ہے جس کے ذریعے پہلے ڈسٹری بیوٹر فلم امپورٹ کرتا ہے پھر اسے سینسر کروا کر نمائش کے لیے پیش کرتا ہے جس میں وقت لگتا ہے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ حکومت کو سنیما کے حوالے سے فیصلہ کرنے سے قبل ان تمام معاملات کو زیرِ غور لانا چاہیے۔
'اگر سنیما کو سانس نہیں لینے دیا گیا تو فلمیں بننا بند ہو جائیں گی'
کراچی کے کیپری سنیما کے مالک فرخ رؤف نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اگر حکومت انٹرٹینمنٹ سیکٹر کو بحران سے نکالنے کے لیے سنجیدہ ہے تو اسے پہلے اپنی پالیسی کا اعلان کرنا ہو گا۔
ان کے بقول حکومت کے فیصلے سے لگتا ہے کہ انہیں اندازہ ہی نہیں ہے کہ سنیما انڈسٹری کے لیے کراچی اور لاہور کتنے اہم ہیں۔ پاکستان میں اس وقت آپریشنل سنیما اسکرینز کی تعداد 110 ہے جس میں سے 50 فی صد اسکرینیں کراچی اور لاہور میں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت پاکستان میں 23 سے 24 فلمیں ریلیز کے لیے تیار ہیں لیکن جب تک 70 سے 80 اسکرینیں تیار نہیں ہوں گی ان کے پروڈیوسر کسی صورت اپنی فلمیں نمائش کے لیے پیش نہیں کریں گے۔
فرخ رؤف کے مطابق اگر حکومت سنیما انڈسٹری کو بحال کرنے میں سنجیدہ ہے تو اسے پہلے ان شہروں میں سنیما کھولنے چاہیئں نہ کہ وہاں جہاں سے 20 فی صد ریوینیو بھی نہیں ملتا۔
فرخ رؤف نے فواد چوہدری کے حالیہ بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ایک طرف حکومت کہتی ہے کہ وہ سنیما کو تحفظ دینا چاہتی ہے اور اس سے متعلق ایک جامع پالیسی لائی جائے گی لیکن دوسری جانب وہ اس سیکٹر کو انڈسٹری کا درجہ نہیں دیتے۔
Your browser doesn’t support HTML5
ان کے بقول اگر حکومت کی جانب سے سنیما انڈسٹری سے متعلق کوئی واضح پالیسی کا اعلان ہو گیا تو سنیما کو مراعات ملیں گی، اخراجات میں کمی ہو گی اور اس سے انہیں بہتر انداز میں کام کرنے کا حوصلہ ملے گا۔
فرخ رؤف کے مطابق "ہمارے پاس دو طرح کے ڈسٹری بیوٹرز ہیں، ایک وہ جو ہالی وڈ فلمیں لاتے ہیں اور دوسرے وہ جو پاکستانی اور بھارتی فلمیں ریلیز کرتے ہیں۔"
ان کا کہنا تھا کہ فی الحال سنیما میں بھارتی فلموں کی نمائش نہیں کی جا رہی اس لیے پاکستانی اور ہالی وڈ فلمیں ہی ریلیز کی جا سکیں گی لیکن ان فلموں کا بھی سنیما میں لگنا اتنا آسان نہیں ہے۔
فرخ رؤف نے کہا کہ سنگل اسکرین سنیما آج بھی سنیما کلچر کا حصہ ہیں اور یہ اُن لوگوں کو تفریح مہیا کرتے ہیں جن کے پاس ملٹی پلیکس جانے کی استطاعت نہیں۔
'شادی بیاہ کی تقریبات ہو سکتی ہیں تو سنیما میں بیٹھنے میں کیا مسئلہ ہے'
ان کا مزید کہنا تھا کہ ملٹی پلیکس سنیما، انڈسٹری کے لیے اہم ضرور ہیں لیکن وہاں کا رخ خاص ہی لوگ کرتے ہیں۔ پاکستان کے عوام آج بھی ان سنیما کا رخ کرتے ہیں جہاں ٹکٹ 200 سے 500 تک دستیاب ہوتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ کرونا وبا سے قبل کیپری سنیما کا ہاؤس فل ہوجانا معمول کی بات تھی جہاں 800 افراد کی گنجائش ہے، لیکن وبا کے بعد جب بھی سنیما کھلے تو ہم نے پچاس فی صد لوگوں کو ہی فلم دکھائی۔
فرخ رؤف کے بقول حکومت کو چاہیے کہ وہ سنیما مالکان کو ان مشکل حالات میں سبسڈی دیں تا کہ وہ اپنا کاروبار شروع کر سکیں۔
ان کا کہنا تھا کہ جب کراچی اور لاہور جیسے شہروں میں لوگ شادی کی تقریبات میں شرکت کر رہے ہیں تو ماسک پہن کر سنیما میں بیٹھنے میں کیا مسئلہ ہے۔
ان کے مطابق ویکسی نیشن کے عمل کو تیز کرنے سے زیادہ ضروری اس کی چیکنگ ہے، اور بہتر چیکنگ ہی کے بعد سنیما کھل اور چل سکیں گے۔
کیپری سنیما کے مالک کا کہنا تھا کہ جب تک سنیما ہیں، فلمیں بھی ہیں۔ جب سنیما نہیں چلیں گے تو فلم انڈسٹری بھی نہیں چلے گی۔ اگر سنیما کو سانس نہیں لینے دیا گیا تو فلمیں بننا بند ہو جائیں گی۔