بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی پیر سے امریکہ کا دورہ شروع کر رہے ہیں۔
پاکستان اور بھارت کے تعلقات کے تناظر میں مبصرین کا کہنا ہے کہ اسلام آباد اس دورے اور اس کے نتائج کو بڑے غور سے دیکھے گا۔
توقع کی جا رہی ہے کہ نریندر مودی کے اس دورے کے دوران پاک بھارت تعلقات کے بارے میں بھی بات چیت ہو گی۔
تجزیہ کار لفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) طلعت مسعود کہتے ہیں کہ امریکہ اور بھارت کے مضبوط ہوتے تعلقات پاکستان کے لیے ’تشویش‘ کا باعث ہے۔
’’پاکستان کے بھارت کے ساتھ بہت سے ایسے تنازعے ہیں جن پر دونوں ملکوں کے درمیان گہرے اختلافات ہیں۔ اس کے ساتھ امریکہ سے بھی تعلقات کشیدہ ہیں۔ تو میں یہ سمجھتا ہوں کہ پاکستان کے لیے یہ کافی تشویش کا باعث ہے۔ بھارت اور امریکہ جتنے قریب آتے جائیں گے پاکستان پر دونوں ممالک کی طرف سے دباؤ بڑھتا جائے گا۔‘‘
اُن کا کہنا تھا کہ اگر ایسا ہوا تو پھر’’ظاہر ہے پاکستان چین سے اور قریب ہونے کی کوشش کرے گا۔‘‘
امریکہ میں پاکستان کی سابق سفیر اور سینیٹر شیری رحمٰن نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ بظاہر یہ لگتا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان رکے ہوئے مذاکرات پر تبادلہ خیال تو ہو لگا لیکن اس شاید کا باضابطہ طور پر اس میں کچھ نا کہا جائے۔
’’شاید وہ آن ریکارڈ اس کا ذکر نہیں کریں گے۔‘‘
لفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) طلعت مسعود بھی کہتے ہیں کہ نریندر مودی کے دورہ واشنگٹن میں پاکستان بھارت مذاکرات کے بارے میں بات چیت ہو سکتی ہے۔
تجزیہ کار حسن عسکری کہتے ہیں کہ امریکہ یہ چاہتا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے مذاکرات ہوں۔
’’امریکہ کی خواہش تو یہ ہی ہے کہ پاکستان اور بھارت مذاکرات کریں۔‘‘
اس دورے کے دوران امریکہ اور بھارت کے درمیان دفاع کے شعبے میں بھی تعاون کے فروغ پر بات چیت متوقع ہے، اگرچہ بھارت اپنی دفاعی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے یورپ اور کئی دیگر ممالک سے اسلحہ و فوجی سازوں سامان خریدتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود بھارت امریکہ سے اسلحہ خریدنے والا ایک بڑا ملک ہے۔