پاکستان نے بنگلہ دیش میں اپنے سفارتی عملے کے رکن پر عائد کیے جانے والے ’’سنگین الزامات‘‘ کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ اُن الزامات میں کوئی سچائی نہیں۔
بنگلہ دیش کے ایک اخبار ’دی اسٹار‘ میں شائع ہونے والی خبر کے مطابق ایک پاکستانی سفارت کار جن کا نام محمد مظہر خان بتایا گیا ہے اُن پر مبینہ طور پر دہشت گرد تنظیموں کو پیسہ فراہم کرنے اور جعلی کرنسی کے لین دین میں ملوث ہونے کے الزامات لگائے تھے۔
اخبار کے مطابق بنگلہ دیش میں حکام نے پاکستان سے کہا تھا کہ وہ اپنے اس سفارت کار کو واپس بلا لیں۔
تاہم پاکستانی وزارت خارجہ کی ترجمان تسنیم اسلم نے جمعرات کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں پاکستان کے ایک سفارت کار پر عائد کیے گئے الزامات کی تردید کی۔
’’سنگین الزامات میں کوئی سچائی نہیں ہے، لیکن ہمارے عملے کے ایک رکن جو پہلے ہی (بنگلہ دیشں میں اپنی تعیناتی کی مدت) پوری کر چکے تھے، انھوں (بنگلہ دیش) نے کہا کہ چلیں جائیں، ان کو آپ یہاں سے بھیج دیں تو وہ واپس آ گئے ہیں۔‘‘
تسنیم اسلم نے کہا کہ وہ اس بارے میں مزید کسی طرح کی تفصیلات فراہم کرنے سے قاصر ہیں۔ پاکستان کی طرف سے نا تو اُس سفارت کا نام بتایا گیا ہے اور نا ہی یہ تفصیلات بتائی گئیں کہ وہ کس شعبے میں کام کر رہے تھے۔
بنگلہ دیش اور پاکستان کے درمیان سفارتی تعلقات سرد مہری کا شکار ہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ بظاہر بنگلہ دیش میں وزیراعظم حسینہ واجد کی حکومت کی طرف سے قائم کیے گئے ایک خصوصی ٹربیونل کی طرف سے اُن متعدد افراد کو سخت سزائیں سنانا ہے جنہوں نے 1971ء میں پاکستان سے علیحدگی کے دوران مبینہ طور پر سنگین جرائم کا ارتکاب کیا۔
حسینہ واجد کی حکومت کی طرف سے بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کے کئی رہنماؤں کو سزائے موت سنائی جا چکی ہے جن میں سے بعض کی سزاؤں پر عمل درآمد بھی کیا جا چکا ہے۔
پاکستانی حکومت کے کئی عہدیداروں اور بعض مذہبی جماعتوں کی طرف سے بنگلہ دیش میں ان لوگوں کو سزائیں سنانے پر تحفظات کا اظہار کیا جاتا رہا ہے۔