'پری زاد' ڈرامے کا اختتام، 'پہلے ہی پتا چل گیا تھا کہ آخرمیں کیا ہونے والا ہے'

Parizaad

پاکستان میں گزشتہ چھ ماہ سے اپنے مکالموں، اداکاری اور اداکار احمد علی اکبر کی بطورمرکزی کردار شاندار پرفارمنس کی وجہ سے شہرت پانے والا ڈرامہ'پری زاد' منگل کی شب اختتام پذیر ہو گیا۔

ٖڈرامےکی 29ویں اور آخری قسط منگل کو نشر ہوئی جسے شائقین نے خوب پسند کیا۔ چار روز قبل پاکستان کے مختلف سنیما گھروں میں ڈرامے کا پریمیئر بھی کیا گیا تھا۔

ڈرامہ نگار ہاشم ندیم کے ناول 'پری زاد' سے ماخوذ اس ڈرامے کو 'ہم ٹی وی' کے لیے مومنہ درید نے پیش کیا تھا اور اس کی ہدایت شہزاد کشمیری نے دیں۔

'پری زاد' میں مرکزی کردار احمد علی اکبر نے ادا کیا۔ ان کے علاوہ اشنا شاہ ، صبور علی، مشعل خان، یمنیٰ زیدی، عروہ حسین کے ساتھ ساتھ نعمان اعجاز، نادیہ افگن، سلمیٰ حسن، اسد ملک ، ہما نواب اور دیگر نے بھی اس میں اہم کردارنبھایا۔

پری زاد کون ہے اور اس کی اتنی دھوم کیوں؟

'ہم ٹی وی' کے اس ڈرامے کی کہانی مرکزی کردار 'پری زاد' نامی نوجوان کے گرد گھومتی ہے، جسے بچپن میں اپنی رنگت، غربت اور نام کی وجہ سے زندگی بسر کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔لیکن بعد میں حالات ایسےبدلتے ہیں کہ وہ کامیابیوں کی منزلیں طے کرتا ہوا سب کو پیچھے چھوڑ دیتا ہے۔

گزشتہ برس جب یہ ڈرامہ نشر ہوا تو شائقین نے احمد علی اکبر کی ڈرامے میں دکھائی جانے والی رنگت کے خلاف شور مچایا ۔ لیکن جوں جوں ڈرامہ آگے بڑھتا گیا لوگ ان کی اداکاری کے معترف ہوتے چلے گئے۔

اگر' پری زاد 'ناول کی بات کریں تو اس میں مرکزی کردار پری زاد محبت میں ناکامی کے بعد گمنام زندگی گزارتے ہوئے مر جاتا ہے۔لیکن ٹی وی پر نشر ہونے والے ڈرامے میں مرکزی کردار کو زندہ رکھا جاتا ہے اور آخر میں اسےعینی (یمنیٰ زیدی) مل جاتی ہے جس سے محبت کرنے کے باوجود دور ہونے کے لیے وہ سب کچھ چھوڑ کر شمالی علاقہ جات کی طرف چلا جاتا ہے۔

سوشل میڈیا پر ڈرامے کی آخری قسط کی چرچے

ڈرامے'پری زاد' میں جہاں معاشرے کی تلخ حقیقتوں کی عکاسی کرنے کی کوشش کی گئی ،وہیں پیسے کی اہمیت اور ظاہری خوب صورتی کو ترجیح دینے والوں کو بھی آڑےہاتھوں لیا گیا۔

ہاشم ندیم کے مکالمے اور شاعری بھی لوگوں میں مقبول ہوئی جب کہ آخری قسط تک لوگوں کو یہ تجسس بھی رہا کہ آیا پری زاد کو اس کی پری ملے گی یا نہیں۔

ڈرامے میں پری زاد کی بہن سعیدہ کا کردار ادا کرنے والی اداکارہ کرن تعبیر نے آخری قسط نشر ہونے کے بعد ٹوئٹ کرتے ہوئے لوگوں کا شکریہ ادا کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ڈرامہ دیکھنے والوں نےبہن بھائی کے درمیان جذباتی مناظر کو پسند کیا ، وہ ان کی مشکور ہیں۔

آخری قسط نشر ہونے سے قبل اداکارہ یمنیٰ زیدی نے بھی ڈرامے کے گانے 'نہ پوچھ پری زادو سے' کے بول ٹوئٹ کرکے ایک تصویر پوسٹ کی، جس میں وہ اور اداکار احمد علی اکبر سیٹ پر موجود ہیں۔

پری زاد کی آخری قسط کے بعد مختلف تصاویر اور تبصرے بھی سوشل میڈیا پر پوسٹ کیے جا رہے ہیں۔

ایک صارف نےایک میم پوسٹ کی جس میں لکھا تھا کہ یہ قسط سنیما میں دیکھ کر انہیں تین دن پہلے ہی پتا چل گیا تھا کہ آخرمیں کیا ہونے والا ہے۔

سجل چوہدری نامی ایک صارف کے بقول اس سے اچھا اختتام کسی ڈرامے کا نہیں ہوسکتا۔

ایک اور صارف فیصل راجپوت نے اپنے ٹوئٹ میں ناول کے مختلف انجام کا حوالہ دیا۔

ایک صارف نے معروف شاعر منیر نیازی کی وہ نظم بھی شیئر کی جس کا تذکرہ ڈرامے میں کیا گیا ہے۔یہی نہیں بلکہ کچھ صارفین نے تو احمد علی اکبر کو ان کی کارکردگی پر ایوارڈ دینے کا مطالبہ بھی کیا۔

ٹوئٹر پر موجود ایک اکاؤںٹ نے شائقین کی توجہ ڈرامے کے ایک سین کی طرف بھی دلائی جس میں عینی اپنی بینائی آنے کے بعد پہلی مرتبہ پری زاد سے ملتی ہے۔

صارف کے بقول یہ سین بھارتی فلم 'فنا' کے ایک سین سے متاثر ہے جس میں ہیروئن کاجول اپنی بینائی واپس آنے کے بعد پہلی مرتبہ ہیروعامرخان سے ملتی ہے۔

ڈرامے کی آخری دو اقساط میں دکھائے جانے والے مناظر اور خوب صورت وادیاں بھی لوگوں کو کافی پسند آئیں۔ پاکستان ٹریول گائیڈ نامی ایک ٹوئٹر اکاؤنٹ نے ڈرامے کا ایک کلپ شیئر کیا جس میں بتایا گیا کہ ڈرامے کی شوٹنگ پاکستان کے زیرِانتظام کشمیر میں واقع وادئ نیلم میں کی گئی ہے۔

پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کے انسپکٹر جنرل پولیس (آئی جی پی) ڈاکٹر تاجک سہیل حبیب نے بھی ٹوئٹ کیا جس میں اداکار احمد علی اکبر شوٹنگ کے بعد وہاں کی انتظامیہ کے تعاون پر شکریہ ادا کر رہے ہیں۔