اپنے گھر کو درست کرنے کے حکومتی بیانات تنقید کی زد میں

وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال

منگل کو اسلام آباد میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر داخلہ احسن اقبال کا کہنا تھا کہ اگر ہم نے اپنا گھر درست نہیں کیا تو کوئی بھی ہماری بات نہیں سنے گا۔ ان کے بقول، اس ضمن میں ہم نے قابل ذکر کام کیا ہے اور مختلف شعبوں میں کامیابیاں حاصل کی ہیں

وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال نے منگل کو ایک بار پھر کہا ہے کہ ہمیں اپنا گھر درست کرنے کی ضرورت ہے جب کہ اسی وزارت کے سابق وزیر چودھری نثار نے ایسے بیانات دینے پر وزیر اعظم سمیت دیگر حکومتی عہدیداروں کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

حالیہ ہفتوں میں تواتر کے اعلیٰ حکومتی شخصیات بشمول وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی طرف سے ایسے ہی الفاظ استعمال کیے جاتے رہے ہیں اور ایک روز قبل ہی وزیر اعظم نے کہا تھا کہ وزیر خارجہ خواجہ آصف کی طرف سے اپنے گھر کو درست کرنے کا بیان درست ہے اور وہ اس نظریے سے متفق ہیں کہ ہمیں پہلے اپنے گھر کو ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔

گو کہ ان کی وضاحت تو نہیں کی گئی، لیکن مبصرین اسے ریاستی اداروں کے درمیان پائی جانے والی کشیدگی کا مظہر قرار دیتے ہیں۔

منگل کو اسلام آباد میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر داخلہ احسن اقبال کا کہنا تھا کہ اگر ہم نے اپنا گھر درست نہیں کیا تو کوئی بھی ہماری بات نہیں سنے گا۔

ان کے بقول، اس ضمن میں ہم نے قابل ذکر کام کیا ہے اور مختلف شعبوں میں کامیابیاں حاصل کی ہیں۔

تاہم، سابق وزیر داخلہ چودھری نثار کی طرف سے سامنے آنے والے ایک بیان میں کہا گیا حکومت کو ایسے بیانات دینے سے گریز کرنا چاہیے جو بین الاقوامی برادری میں ملک کے لیے شرمندگی کا باعث بنیں۔

سابق وزیر داخلہ چودھری نثار (فائل فوٹو)

قبل ازیں، وزیر خارجہ خواجہ محمد آصف بھی مختلف مواقع پر ایسے ہی بیانات دے چکے ہیں جن پر حکمران جماعت مسلم لیگ کے سینیئر قانون ساز چودھری نثار علی خان نے انھیں یہ کہہ کر کڑی تنقید کا نشانہ بنایا تھا کہ ایسے بیانات دینے والوں کے ہوتے ہوئے پاکستان کو بیرونی دشمنوں کی ضرورت نہیں۔

مبصرین کا خیال ہے کہ ایسے بیانات کی وضاحت ضروری ہے نا کہ مزید ایسے اشارے دیے جائیں جس سے بیرونی دنیا میں پاکستان سے متعلق ابہام پیدا ہو۔

دفاعی امور کے سینیئر تجزیہ کار اور سابق انٹیلی جنس عہدیدار اسد منیر کہتے ہیں کہ یہ بظاہر ان جہادی تنظیموں کے تناظر میں بات کی جا رہی ہے جن کے بارے میں یہ گمان کیا جاتا ہے کہ انھیں فوج کی خفیہ ایجنسی معاونت فراہم کرتی ہے جب کہ، ان کے بقول، فی الوقت ایسی سرگرمیوں کا کوئی وجود نہیں ہے۔

سینیئر تجزیہ کار ڈاکٹر ہما بقائی کے نزدیک حکومت میں بیٹھی اہم شخصیات کی طرف سے ایسے بیانات سول حکومت اور اسٹیبلشمنٹ میں ایک طرح کے تناؤ کو ظاہر کرتی ہیں۔

اُنھوں نے کہا ہے کہ "پاکستان کے لیے یہ نقصان دہ ہے وضاحت کے ساتھ اس کا جواب آنا چاہیے اور جن وزارتوں کو جواب دینا ہے اگر وہی ابہام پیدا کریں گی تو ہمارے (پاکستان کے) لیے اپنے موقف کا دفاع کرنا مشکل ہو جائے گا۔۔۔ اسٹیبلشمنٹ کی کوشش ہے کہ غلط یا مبہم اشارہ پاکستان سے نہ جائے ظاہر ہے اگر (اشارے) جا رہے ہیں تو یہ عکاس ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اور حکومت میں کشمکش ہے۔"

تاہم، منگل کی شام ایک پریس کانفرنس کے دوران پوچھے گئے سوال پر وزیر مملکت برائے اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب کا کہنا تھا کہ یہ بیانات ملک میں دہشت گردی و انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے جاری کوششوں کے تناظر میں دیے گئے۔

ایک روز قبل ہی پاکستانی فوج نے قانون سازوں پر مشتمل وفد کو سلامتی سمیت مختلف امور پر بریفنگ دی تھی اور اس موقع پر فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کا کہنا تھا کہ سویلین حکومت اور فوج کے تعلقات میں کوئی الجھن نہیں ہونی چاہیے اور پاکستان کے دشمنوں کے خلاف سب کو اجتماعی طور پر کام کرنا ہوگا۔