پاکستانی کشمیر میں ہزاروں بچے کھلے آسمان تلے پڑھنے پر مجبور

پاکستانی کشمیر میں بوسیدہ خیمے میں قائم ایک دیہی سکول۔ نومبر 2017

پاکستانی کشمیر کے ضلع جہلم ویلی ھٹیاں بالا کے گاوں بانڈی موری بھی ان دیہات میں شامل ہے جہاں بارہ برس قبل زلزلے میں تباہ ہونے والے پرائمری سکول کی تعمیر تاحال مکمل نہیں ہو سکی۔

روشن مغل

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے دیہی علاقوں میں اسکولوں کی عمارتوں اور اساتذہ کی کمی کے باعث لاکھوں طالب علموں کو تعلیم کے حصول میں رکاوٹوں کا سامنا ہے۔

عمارت ہے تو استاد نہیں اور اگر استاد ہیں تو عمارت نہیں۔

اسی فیصد سے زائد آبادی پر مشتمل دیہی علاقوں میں 12 برس قبل کے تباہ کن زلزلے میں منہدم ہونے والے اسکولوں میں سے سینکڑوں کی عمارتیں اب بھی مکمل نہیں ہو سکیں، جس کے باعث سخت سردی میں طالب علموں کی ایک بڑی تعداد پھٹے پرانے خیموں یا کھلے آسمان کے نیچے تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہے۔

دیہی علاقوں کے مکینوں کا کہنا ہے کہ حکومتی عہدیدار وں کی عدم دلچسپی کی وجہ سے نئی نسل کو تعلیم حصول میں دشواریوں کا سامنا ہے۔

پاکستانی کشمیر کے ضلع جہلم ویلی ھٹیاں بالا کے گاوں بانڈی موری بھی ان دیہات میں شامل ہے جہاں بارہ برس قبل زلزلے میں تباہ ہونے والے پرائمری سکول کی تعمیر تاحال مکمل نہیں ہو سکی۔ جس کی وجہ سے گاؤں کے ایک سو پچاس بچے ایک بوسیدہ خیمے میں تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہیں۔

خیمہ سکول کے واحد استاد محمد راشد نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ جب وہ ایک کلاس کو پڑھاتے ہیں تو باقی کلاسوں کو خیمے سے باہر کھڑا کرنا پڑتا ہے۔

راشد نے بتایا کہ بوسیدہ خیمے میں بارش کو روکنے کے لیے بچوں کے چندے سے پلاسٹک شیٹ خریدی گئی ہے۔

کئی سکول تعمیری مراحل میں ہیں

بانڈی موری گاؤں پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر خان کے حلقہ انتخاب میں واقع ہے۔

اسی گاؤں کے سماجی کارکن قدیرحسین نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ بارش میں سکول بند کرنا پڑتا ہے۔

اسکول کی تعمیر گذشتہ دس سال سے جاری ہے لیکن ابھی تک مکمل نہیں ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس گھر میں اگر کوئی فالتو کمرہ ہو تو وہ بھی دینے کو تیار ہیں ۔ان کا کہنا تھا کہ سردی کی وجہ سے بچے بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں۔

Your browser doesn’t support HTML5

پاکسان کے زیر انتظام کشمیر میں اسکولوں کی حالت

پاکستانی کشمیر کے بحالی وتعمیر نو کے ادارے سیرا کے ناظم پلاننگ عابد غنی میر نے وی او اے کو بتایا کہ جن منصوبوں پر پچاس فیصد سے زائد کام ہو چکا ہے انکی تکمیل کے لیے فنڈ فراہم کیے جارہے ہیں۔

عابد غنی میر کا کہنا تھا کہ اس وقت ڈیڑھ لاکھ کے قریب طالب علم بوسیدہ خیموں اور کھلے آسمان کے نیچے تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہیں۔