پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں بجلی پیدا کرنے کی غرض سے شہر سے گزرنے والے دریا کے رخ میں تبدیلی کے خلاف پیر کے روز احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔
قانون ساز اسبملی کے سامنے سول سوسائٹی کی طرف سے دریا بچاو تحریک کے تحط مظاہرے میں وکلا، تاجروں، طلبہ اور سیاسی راہنماؤں نے شرکت کی۔
سیاہ جھنڈے اٹھائے ہوئے مظاہرین قانون ساز اسمبلی کی عمارت میں جانا چاہتے تھے، جہاں اجلاس جاری تھا۔ لیکن پولیس نے مظاہرین کو اسمبلی کی عمارت میں داخل ہونے سے روک دیا۔
مظاہرے میں شامل ایک سیاسی لیڈر افضال سلہریا نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ آج قانون ساز کے اجلاس کے موقع پر آج سول سوسائٹی نے اسبملی کے ارکان اور حکومت کی بے حسی کے خلاف یوم سیاہ منایا۔
پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے صدرمقام مظفرآباد میں سول سوسائٹی اور تاجروں کی طرف سے بجلی پیدا کرنے کے لیے ڈیم بنا کر دریا کا رخ موڑنے کے خلاف احتجاج کیا جا رہا ہے۔ یہ دریا شہر کے اندر سے گزرتا ہے۔
مظاہرین کہنا ہے کہ دریا کا رخ موڑنے سے ماحولیات اور پانی کی نکاسی اور فراہمی کے سنگین مسائل پیدا ہو گئے ہیں، جب کہ اسبملی کے ارکان اور حکومت ان مسائل کو واپڈا اور وفاقی حکومت کے ساتھ دو ٹوک طریقے سے پیش نہیں کر پا رہی۔
واپڈا کے ترجمان نیئر علاؤالدین نے بتایا کہ شہر کے لیے معاہدے کے تحت دریائے جہلم میں طے شدہ مقدار سے زیادہ پانی چھوڑا جارہا ہے، جب کہ دریا کی آلودگی اور سیوریج کی نکاسی کے مسائل مقامی حکومت نے حل کرنے ہیں۔
واپڈا کی طرف سے ماحولیاتی اثرات کم کرنے کے لیے مقامی حکومت کو تین ارب روپے فراہم کیے گئے ہیں۔
مظفراباد شہر کے وسط سے گزرنے والے دریآئے نیلم کا رخ موڑنے کے بعد پن بجلی کے ایک اور بڑے منصوبے کے لیے شہر کے ایک کونے سے بہنے والے دریائے جہلم کے پانی کو بھی موڑنے کا کام شروع ہو چکا ہے۔
دریا بچاؤ تحریک کے راہنماوں کا کہنا ہے کہ دونوں دریاؤں کا پانی موڑ کر مظفرآباد کو ماحولیاتی تباہی کی طرف دھکیلا جا رہا ہے۔
پاکستانی کنڑول کے کشمیر کے وزیر اعظم فاروق حیدر خان نے بتایا ہے کہ واپڈا کے ساتھ طے ہوا ہے کہ وہ دریا میں زیادہ پانی چھوڑے گا۔ جس کی نگرانی واپڈا اور پاکستانی کی حکومت مشرکہ طور پر کرے گی اور شہر کا درجہ حرارت برقرار رکھنے لیے بند بنائے جائیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت کی طرف سے دریاؤں کا رخ موڑنے جانے کے نتیجے میں پیدا ہونے والے ماحولیاتی مسائل کے بارے میں وفاقی حکومت کو خط بھی لکھا گیا ہے۔