پاکستان میں حکومت اور حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والے قانون سازوں نے بھارت کی طرف سے ممبئی حملوں کے مبینہ منصوبہ ساز ذکی الرحمٰن لکھوی کی ضمانت پر رہائی کا معاملہ اقوام متحدہ میں اٹھانے پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کا عدالتی نظام خود مختار ہے اور حکومت کے تابع نہیں۔
انہوں نے کہا کہ بھارت دو طرفہ مذاکرات میں کسی تیسرے فریق کی معاونت کے خلاف ہے، اسے یہ معاملہ بھی دو طرفہ مذاکرات کے ذریعے حل کرنا چاہیئے۔
رواں ہفتے سلامتی کونسل کی ’’تعزیراتی کمیٹی‘‘ کا اجلاس بھارت کی درخواست پر بلایا گیا جس میں بھارت کی تجویز پر پاکستان سے لکھوی کی رہائی پر وضاحت طلب کی جانی تھی۔
لیکن چین نے یہ کہہ کر اس کی مخالفت کی ہے کہ بھارت نے اس معاملے پر مکمل معلومات فراہم نہیں کیں، جس پر بھارت نے چین سے اعلیٰ سطح پر شدید احتجاج کیا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے سابق وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پاکستان کا قانونی نظام حکومت کے تابع نہیں۔
’’ہم نے بھارت کو کئی مرتبہ سمجھایا ہے کہ پاکستان کا قانونی نظام ہمارے تابع نہیں۔ ہم دہشتگردی پر بھارت سے تعاون کرنا چاہتے ہیں۔ اگر بھارت نے فیصلہ ہی کر لیا ہے کہ اس نے ہر فورم پر، باالخصوص انٹرنیشنل فورم پر اس نے پاکستان کو نیچا دکھانا ہے، تو اس سے ماحول خراب ہوتا ہے۔ ہمیں ماضی سے سبق سیکھنا چاہیئے کہ یہ عفریت سب کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا، جو کسی کے مفاد میں نہیں۔ ہمیں ایک دوسرے پر انگلیاں اٹھائے بغیر تعاون کا سوچنا چاہیئے۔‘‘
پاکستان کے وفاقی وزیر برائے ماحولیاتی تبدیلی سینیٹر مشاہد اللہ خان نے بھی بھارت کے رویے کو غیر ذمہ دارانہ قرار دیا ہے۔
’’پاکستان کا اپنا قانون ہے اور ہم اپنے قوانین کی پاسداری کریں گے۔‘‘
ذکی الرحمن لکھوی کے خلاف بھارتی شہر ممبئی میں 2008ء میں ہونے والے دہشت گرد حملوں کی منصوبہ بندی کے الزام میں پاکستان نے عدالتی کارروائی شروع کر رکھی ہے۔
گزشتہ سال کے اواخر میں ایک پاکستانی عدالت نے ذکی الرحمن لکھوی کو ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیا تھا جس پر اُس وقت بھی بھارت نے شدید احتجاج کیا تھا۔
پاکستانی حکام نے لکھوی کی رہائی کے فوری بعد ہی انھیں خدشۂ نقض امن عامہ کے قانون کے تحت ایک ماہ کے لیے نظر بند کر دیا اور اس نظر بندی میں تین بار توسیع کی گئی۔
اپریل میں ان کی نظر بندی میں مزید توسیع نہ کرتے ہوئے انھیں عدالت نے رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔
حالیہ ہفتوں کے دوران پاکستان اور بھارت کے رہنماؤں کے درمیاں تلخ بیان بازی کا سلسلہ جاری رہا، جس سے عالمی سطح پر نشویش کا اظہار کیا گیا۔
امریکی وزیرِ خارجہ نے دونوں ممالک سے رابطہ کیا اور انہیں اپنے مسائل مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی تجویز دی۔ بھارتی وزیرِ اعظم کے اپنے پاکستانی ہم منصب کو رمضان کے موقع پر ٹیلی فون اور دونوں جانب سے ایک دوسرے کے ماہی گیروں کی رہائی کے بعد حالات میں بہتری آئی ہے۔