پاکستان کی حکومت کی طرف سے باضابطہ طور ایک بھارتی اخبار میں شائع ہونے والے اس رپورٹ پر تاحال کوئی ردِ عمل سامنے نہیں آیا ہے جس میں بھارتی حکام کے بیانات کی بنیاد پر یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ پاکستان میں مقیم سکھ شدت پسند گروپ بعض بے روزگار سکھ نوجوانوں اور اسمگلروں کو مبینہ طور پر بھارت میں شدت پسندی کے کارروائیوں کے لیے استعمال کررہے ہیں اور پاکستان کی ایک انٹیلی جنس ایجنسی ان کی مدد کر رہی ہے۔
تاہم حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور سینیٹر لیفٹننٹ جنرل (ر) عبدالقیوم نے ان الزامات کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت اپنے ہاں مذہبی اقلیتوں اور اپنے زیرِ اننظام کشمیر کی صورتِ حال سے توجہ ہٹانے کے لیے ایسے دعوے کر رہا ہے۔
واضح رہے کہ بھارتی اخبار 'ہندو' میں رواں ہفتے شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق بھارت کی وزارتِ داخلہ نے ایک پارلیمانی کمیٹی کو بتایا ہے کہ پاکستان کی انٹیلی جنس ایجنسی 'آئی ایس آئی' نے مبینہ طور پر بھارت میں عسکری کارروائیاں کرنے کے لیے سکھ نوجوانوں کو تربیت فراہم کی۔
کمیٹی کو یہ بھی بتایا گیا کہ یورپ، امریکہ اور کینیڈا میں مقیم سکھ نوجوانوں کو بے بنیاد پروپیگنڈے سے بھارت کے خلاف اکسایا جارہا ہے۔
سینیٹر عبدالقیوم نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کے دوران بھارت کے الزامات کو پاکستان مخالف پروپیگنڈا کہہ کر مسترد کیا۔
"بھارت کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور ملک کے اندر دیگر مذہبی اقلیتوں بشمول مسلمان، سکھ اور دیگر برداریوں سے روا رکھے جانے والے ناروا سلوک سے توجہ ہٹانے کے لیے کھبی گریٹر بلوچستان کی بات کرتا ہے، کبھی پاکستان پر سکھوں کی حمایت کا الزام عائد کرتا ہے۔ یہ بے بنیاد الزامات ہیں اور ہم انھیں مستردکرتے ہیں۔"
انہوں نے کہا کہ پاکستان ایک امن پسند ملک ہے اور ہم بھارت سمیت اپنے تمام ہمسایہ ملکوں کے ساتھ امن سے رہنا چاہتے ہیں۔
پاکستانی سکھ برادری کے ایک سرکردہ رہنما اور پنجاب اسمبلی کے رکن رامیش سنگھ اروڑا نے کہا ہے کہ پاکستان میں بسنے والے سکھ ایک پرامن قوم ہیں اور وہ ان الزمات کو مسترد کرتے ہیں کہ پاکستان کے انٹیلی جنس ادارے سکھ نوجوانوں کو کسی دوسرے ملک میں کارروائیاں کرنے کی تربیت فراہم کر رہے ہیں۔
بھارت کی طرف سے ماضی میں بھی پاکستان پر سکھ علیحدگی پسند تحریک کی حمایت کے الزامات عائد کیے جاتے رہے ہیں۔
پاکستان کا مؤقف ہے کہ بھارت اس کی جنوبی مغربی صوبے بلوچستان اور دیگر علاقوں میں ان عناصر کی حمایت کر رہا ہے جو شدت پسندی کے سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔
اسلام آباد اور نئی دہلی دونوں ہی ان الزامات کو مسترد کرتے ہیں۔
تاہم حالیہ مہینوں میں ایسے الزامات زیادہ شدت سے عائد کیے جارہے ہیں اور بعض مبصرین اس کی وجہ دونوں ملکوں کی درمیان باہمی تعلقات میں آنے والے تعطل کو قرار دیتے ہیں۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان اور بھارت کے درمیان بات چیت کا کوئی سلسلہ بحال ہوتا ہے تو شاید دونوں ملکوں کے درمیان ایسے بیانات کا سلسلہ بھی تھم جائے۔