دنيا بھر ميں ایک درجن سے زائد ممالک ميں آم کی پیداوار ہوتی ہے ليکن مٹھاس کے حوالے سے پاکستانی آم کا شاید ہی کوئی نعم البدل ہو۔ شاید اسی لیے آم کو پاکستان کا قومی پھل کہا جاتا ہے۔
حکمراں برطانيہ کے شاہی محل سے لے کر خليجی ممالک تک تحفے کے طور پر آم بھجوائے جاتے ہيں۔ فرانس ميں کہا جاتا تھا کہ اگر آپ کے پاس ايک پاکستانی آم ہو تو لوگ اس کے وزن کے برابر فرانک دينے کو تيار ہو جاتے ہیں۔
ڈاکٹر محمد امين، محمد نواز شريف ايگريکلچر يونيورسٹی ملتان ميں اسسٹنٹ پروفيسر ہیں، اُن کے مطابق پاکستان میں آم کی تقریباً 400 اقسام ہیں اور صوبہ سندھ اور پنجاب میں سالانہ 17 لاکھ ٹن آم پيدا ہوتا ہے۔
وائس آف امريکہ سے بات کرتے ہوئے 'مینگو مین' کے نام سے مشہور ڈاکٹر محمد امین نے بتایا کہ پاکستان اس وقت 170 ملين ايکڑ زمين پر آم کاشت کرتا ہے ليکن برآمدات 64 ہزار ٹن ہے جس میں جلد ہی سائنسی بنیادوں پر اضافہ ہوگا اور مزید زرمبادلہ پاکستان لایا جاسکے گا۔
اُن کا کہنا تھا کہ عام طور پر پاکستان ميں آم کی کوالٹی کو برقرار رکھنے کے لیے خاطر خواہ توجہ نہیں دی جاتی مگر بيرون ممالک آم کی برآمدات کے لیے حفظان صحت کے اصولوں کو خصوصی طور پر مدنظر رکھا جاتا ہے۔
ڈاکٹر امين کا کہنا ہے کہ ''آم ايک ايسا پھل ہے جس کی گٹھلی سے لے کر پتوں تک ہر چيز ميں شفا ہے۔ ان کے بقول پاکستانی آم کا کوئی نعم البدل نہیں ليکن اگر ہم ذائقے کو مدنظر رکھيں تو پھر ايشياء کی مارکيٹ کا کوئی ثانی نہیں ليکن اگر ہم ايکسٹرنل کوالٹی کی بات کريں جس ميں پيکنگ اور بيرونی ساخت کی جھلک نظر آتی ہے تو اس ميں دنيا کے ديگر ممالک ہم سے بہت آگے ہيں۔"
انہوں نے مزيد وضاحت کرتے ہوئے بتايا کہ گاہک کو ہر چيز کی خوبصورتی ہی اپنی طرف کھينچ لاتی ہے، اگر ہم دنيا کے دوسرے آم پيدا کرنے والے ممالک جيسے چین، ميکسيکو، آسٹریلیا اور کئی افريقی ممالک کی طرز پر پيکنگ شروع کرديں تو پاکستانی آم ان پر بہت جلد سبقت لے جا سکتا ہے۔
ڈاکٹر امین کا کہنا ہے کہ مئی سے اگست تک ملتان ميں ہر طرف آم ہی آم نظر آتے ہيں۔ اگر ملتان کو آم کی جنت کہا جائے تو غلط نہ ہو گا۔
محمد رياض گزشتہ 20 سال سے آم کا کاروبار کرتے ہيں۔ يہ کاروبار انہیں ورثے ميں ملا ہے۔ ان کے باغ ميں 3000 درخت ہيں اور وہ صرف برآمد کا کام کرتے ہيں۔
ان کا کہنا ہے کہ وہ جاپان اور يورپی ممالک کو آم برآمد کرتے ہيں اور اچھا زرمبادلہ حاصل کر ليتے ہيں۔ اس وقت ملتان ميں سفيد چونسہ اپنے عروج پر ہے اور تمام مزدور کٹائی اور چنائی ميں مصروف ہيں۔
محمد رياض کا کہنا ہے کہ وہ آم پر خاص کوالٹی کا اسپرے کرتے ہيں اور ساتھ ساتھ پھل کو مکھی کے اثرات سے بچانے کے لئے اسپيشل باکس لگاتے ہيں جس ميں دوائی کی مہک مکھی کو اپنی طرف کھينچ لاتی ہے اور پھل محفوظ رہ جاتا ہے۔