معاملہ ریاستی ادارے کو ملزم ٹہرانے کا ہے یا پیشہ ورانہ رقابت کا؟ مسئلہ ادارتی کنٹرول کا ہے یا بڑھتی ہوئی عدم برداشت کا؟ کیا میڈیاکی یہ جنگ صحافتی آزادیوں کے لئے خطرہ بن سکتی ہے؟ سینئر صحافیوں ایم ضیاءالدین، مظہر عباس، شاہین صہبائی اور انور اقبال کی گفتگو۔
واشنگٹن —
روزنامہ جنگ کے گروپ ایڈیٹر شاہین صہبائی نے کہا ہے کہ جیو نیوز اور جنگ گروپ نے آج تک جتنے بڑے بڑے اسکینڈل بے نقاب کئے، ان میں سے نوے فیصد حقیقی ایشوز پر مبنی تھے، جنہیں بعد میں باقی چینلز نے بھی اٹھایا۔
شاہین صہبائی کا کہنا تھا کہ ممکن ہے ہم سے کہیں کچھ زیادتی بھی ہوئی ہو، لیکن ہم کسی سے انتقام لینے کے لئے ایسا نہیں کر رہے تھے، ہم اپنا کام کر رہے تھے اور باقی لوگ اپنا کام نہیں کر رہے تھے۔
شاہین صہبائی 'وائس آف امریکہ' کے پروگرام 'انڈیپنڈنس ایونیو' میں پاکستانی میڈیا کے موجودہ بحران پر بات کر رہے تھے۔
انہوں نے کہا کہ لڑائی بنیادی طور پر مالکان کے درمیان ہے۔ مالکان پہلے اخبارات کو کنٹرول کرتے تھے، اب پروگرامز کو کنٹرول کرتے ہیں۔ کئی مالکان نے اس وجہ سے ٹی وی چینل شروع کئے کہ دوسرے گروپ کا نیچے گرانا ہے اور اسے ختم کرنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اتنے برسوں کی لڑائی کے بعد جنگ گروپ پریشر میں آیا ہے۔ میں مانتا ہوں کہ غلطیاں ہوئی ہیں، مگر سب کو پہلی دفعہ یہ موقع ملا ہے کہ جیو کو کیسے نقصان پہنچایا جائے۔
انہوں نے کہا کہ شاخ تو معلوم نہیں بچے گی یا نہیں، پورا درخت ہی شاید گر جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ صورتحال ہم پروفیشنل لوگوں کی ذمہ داری اور ناکامی بھی ہے۔ ہماری کونسل آف ایڈیٹرز کا کوئی کردار نہیں ہے، کیونکہ وہاں سب مالکان بیٹھتے ہیں۔ آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی میں بھی مالکان بیٹھتے ہیں۔ تو ایڈیٹرز کا رول کم ہو گیا۔ جو ایڈیٹرز موجود ہیں ان کا کوئی کردار نہیں ہے۔ پروفیشنل صحافیوں کو کوئی ایسی تنظیم بنانی چاہئے جہاں ان کی کوئی اہمیت ہو، اور وہ اپنا کردار تسلیم کراسکیں ۔
شاہین صہبائی کا کہنا تھا کہ پاکستانی جمہوریت ابھی اتنی مضبوط نہیں ہوئی ہے کہ وہ ایسے معاملات سے اتنی آسانی سے نمٹ سکے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ابھی ہم ترکی ماڈل کے لئے تیار نہیں ہیں۔ ترکی میں سویلین حکومت نے دو تین الیکشن میں خود کو منوا کر ثابت کیا کہ سویلین ملک کے لئے بہتر ہیں، اور پھر فوج پر ہاتھ ڈال کر 40، 50 جرنیلوں کو برطرف کیا تھا اور کوئی اعتراض نہیں کر سکا تھا۔ پاکستان میں منتخب حکومت دھاندلی کے الزامات کے ساتھ اقتدار میں آتی ہے اور پہلے دن سے چاہتی ہے کہ آرمی چیف بھی اس کی مرضی کا ہو، آئی ایس آئی چیف کو بھی نکال دیں۔ تو پاکستان ابھی اس کے لئے تیار نہیں ہے اور حکومت کو احتیاط سے چلنا پڑے گا۔ اور لوگوں کو یہ باور کرانا پڑے گا کہ جمہوریت بہتر سسٹم ہے اور بہتر کام کرتا ہے۔
انگریزی روزنامے 'ایکسپریس ٹریبیون' کے سینئر ایڈیٹر ایم ضیاءالدین نے کہا کہ پاکستانی میڈیا خود اپنی آزادیاں کھونے کی تیاری کر رہا ہے۔ حامد میر پر حملے کے بعد حکومت نے فوراً ایک عدالتی کمیشن قائم کر دیا۔ پھر ایک مشترکہ تفتیشی ٹیم بنی، وزارت دفاع نے پیمرا میں جیو کے خلاف ایک چارج شیٹ پہنچا دی۔ اگر یہ نارمل سچویشن میں ہوتا تو ایک طریقہ کار پر عمل ہوتا، مگر مسئلہ اس لئے بڑھا کہ انڈسٹری میں لڑائیاں پہلے سے جاری تھیں۔
انہوں نے کہا کہ ایک سال پہلے ایک نئے چینل 'بول' کے آنے کا غلغلہ اٹھا، جس پر جیو نے الزام عائد کیا کہ اسے آئی ایس آئی کی سرپرستی حاصل ہے۔ پھرمبشر لقمان کی مہم شروع ہو گئی۔ ایک خیال ہے کہ چونکہ آئی ایس آئی ہرٹ ہوئی تھی، اس لئے مبشر لقمان اور 'اے آر وائی' کو استعمال کیا گیا۔ حامد میر کے واقعے کے بعد لڑائی اور کھل کر سامنے آگئی۔ پھر دوسرے چینل بھی اس میں شامل ہو گئے، جن کے جیو کے مالکان سے اپنے مسائل تھے، جب سب آپس میں گتھم گتھا ہوئے تو مسئلہ کچھ کا کچھ ہو گیا۔
ایم ضیاءالدین کا کہنا تھا کہ پاکستانی میڈیا نے چار فوجی حکومتوں کے دور میں کام کیا ہے۔ جب فوجی دور میں حکومت پر تنقید ہوتی ہے تو اس کا مطلب فوج پر تنقید ہوتی ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ جمہوری حکومت آنے کے بعد ہمارا ذہن تبدیل نہیں ہوتا۔ ان کا کہنا تھا کہ اداروں کا جتنا احترام واجب ہے، اس کا خیال رکھنا چاہئے۔
انہوں نے کہا کہ صحافت کا کردار 'واچ ڈاگ' کا ہوتا ہے لیکن ایسا معلوم ہوتا تھا کہ جیو اور جسٹس افتخار چوہدری کے درمیان کوئی nexus بن گیا تھا۔ جس نے تمام میڈیا کو کنفیوز کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ پرنٹ جرنلزم میں زیر سماعت عدالتی مقدمے کے حوالے سے رپورٹنگ نہیں کی جاتی تھی، لیکن سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری صاحب نے اجازت دے رکھی تھی کہ کورٹ میں زیر سماعت معاملات کی خبروں کے ٹکرز چلائے جائیں، اور رات کے ٹاک شوز میں ان پر بات کی جائے۔ چاہے کسی ٹاک شو میزبان کو قانون کی سمجھ بوجھ ہو یا نہ ہو۔
ایم ضیاءالدین کے بقول اس وقت ایسا لگا جیسے سابق چیف جسٹس ہیرو بننا چاہتے تھے اور اس کے لئے انہوں نے زبردست طریقے سے جیو گروپ کو استعمال کیا۔ جبکہ جیو گروپ نے بھی سابق چیف جسٹس کو استعمال کیا۔ دوسرے چینلز نے بھی ایسا ہی کرنے کی کوشش کی اور میڈیا میں سب کچھ الٹ پلٹ ہو گیا۔
ایم ضیاءالدین کے بقول، چونکہ جیو کے پاس سب سے بڑا ڈھول تھا، اس لئے انہوں نے سب سے زیادہmess create کیا۔ ہر دوسرے دن کوئی خبر یا کالم چھپتا رہا کہ زرداری حکومت اب گئی کہ تب گئی۔ یہ کوئی ذمہ دار صحافت نہیں تھی۔
ایم ضیاءالدین نے خدشہ ظاہر کیا کہ آئی ایس آئی اتنی برہم ہے کہ وہ جیو کو معاف کرنے کے موڈ میں نہیں ہے۔ انہوں نے اپنی چارج شیٹ میں جیو کو غدار کہا ہے، پھر اس چارج شیٹ کو الیکٹرانک میڈیا کی ریگولیٹری باڈی کے پاس بھیجا جانا، جو ایک سرکاری ادارہ ہے، ایک خطرناک صورتحال ہے۔ اس پر توہین مذہب کے الزامات بھی شامل ہوگئے، جو یقیناً غلطی سے ہوا ہوگا۔ لیکن مسئلہ اب یہ ہے کہ میڈیا کے ادارتی فیصلے ہجوم کے ہاتھ میں دے دیئے گئے ہیں، مولانا کے ہاتھ میں دے دیے گئے ہیں، کیبل آپریٹرز کے ہاتھ میں دے دیے گئے ہیں، جو ایک بےحد سنگین صورتحال ہے۔
سینئر تجزیہ کار اور 'پاکستان یونین آف جرنلسٹس' کے سابق سیکرٹری جنرل مظہر عباس نے کہا کہ میڈیا اداروں کے کاروباری مفادات، موجودہ بحران کی تمام وجوہات پر حاوی ہیں۔ پاکستان میں الیکٹرانک میڈیا کی پچاس سے ساٹھ ارب روپے کی مارکیٹ ہے۔ جسے حاصل کرنے کے لئے ہر میڈیا گروپ نے کئی کئی چینل کھول لئے ہیں۔ ہر چینل دوسرے کی مارکیٹ چھیننا چاہتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ حامد میر پر حملے کے بعد صورتحال نے بے حد سنجیدہ رخ اختیار کر لیا ہے، کیونکہ پہلی مرتبہ اس معاملے میں ورکنگ جرنلسٹ بھی شامل ہو گئے ہیں۔ صورتحال کا سب سے منفی پہلو یہ ہے کہ چینلز نے ایک دوسرے کے خلاف سیاست دانوں کی طرح انتہائی نازیبا زبان استعمال کی۔
مظہر عباس نے 27 مئی کو پیمرا کے مجوزہ اجلاس کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ پاکستانی الیکٹرانک میڈیا ایک ادارے کے موثر نہ ہونے کا خمیازہ بھگت رہا ہے جو غیر فعال ہے۔ مالکان ایڈیٹر بنے بیٹھے ہیں اور اب انہوں نے نیوز اور کرنٹ افئیرز بھی کنٹرول کرنا شروع کر دیے ہیں۔ اینکرز کو بتایا جاتا ہے کہ پروگرام کا مہمان کون ہوگا، اور گفتگو کا کیا رخ ہوگا۔ وکلاء موومنٹ سے پہلے تک ایسا نہیں تھا، لیکن اس کے بعد پاکستانی میڈیا میں ایجنڈا سیٹ کرنے کی کوشش بھی نظر آئی۔
مظہر عباس کا کہنا تھا کہ پیمرا کا چئیرمین اور تمام اراکین حکومت نامزد کرتی ہے۔ اب مطالبہ یہ کیا جا رہا ہے کہ پیمرا کو غیر جانبدار ادارہ بنایا جائے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ہتک عزت کا قانون اتنا کمزور ہے، کہ لوگ اس طرف جاتے ہی نہیں۔
ورنہ ایک دو غلط خبروں پر کوئی قانونی ایکشن ہوا ہوتا تو سب ٹھیک ہوجاتا۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت سارا دباؤ اینکرز پر ہے، ان سے غلطیاں ہوتی ہیں چاہیں وہ نیوز ہو، یا مارننگ شوز ہوں۔ جیسا کہ جیو کے مارننگ شو کے ساتھ ہوا۔ جو کہ ایک بڑی ادارتی غلطی تھی کہ ایک تفریحی پروگرام میں مذہب کا رنگ شامل کیا گیا۔ بعض حساس معاملات ایسے ہوتے ہیں جن کا خیال رکھنا ہی پڑتا ہے۔ مذہب یا حساس اداروں کی بات ہو، تو جب تک ڈائریکٹر نیوز یا کسی سینئر ایڈیٹر سے مشورہ نہ کرلیں، خبر کو نہیں چلانا چاہئے۔
مظہر عباس نے کہا کہ ایسے حساس معاملات پر لائیو شوز میں بیٹھ کر بات کی جا رہی ہے، جن کے بارے میں کسی کو اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ مہمان کیسی باتیں کریں گے۔ کچھ عرصے پہلے 'کیپٹل' ٹی وی کے ایک پروگرام میں ایک سابق آرمی چیف کو گالی دے دی گئی۔ جس پر وہ چینل فوری طور پر آف ایئر کر دیا گیا۔ اگر نشریات براہ راست نہ ہوتیں یا کوئی مضبوط ایڈیٹر ہوتا تو وہ چیز کبھی بھی اس طرح نشر نہیں ہو سکتی تھی۔
مظہر عباس نے کہا کہ کچھ عرصے قبل اسلام آباد میں سکندر نامی شخص کا جو واقعہ ہوا تھا، جہاں علم نہیں تھا کہ ایک بندوق بردار شخص سڑک پر کھڑا اب کیا کر دے گا، اس کے براہ راست انٹرویوز نشر کئے گئے۔ کسی کو علم ہی نہیں کہ 'ہوسٹیج سچویشن' میں کرنا کیا چاہئے۔ ایسا ادارتی کنٹرول کسی چینل میں ہمیں نظر نہیں آتا۔ اور ایک ایسے معاشرے میں جہاں عدم برداشت بہت زیادہ ہو، جہاں ذرائع ابلاغ کے درمیان مخاصمت کی ایسی فضا ہو، وہاں کوئی ادارہ اتنی بڑی غلطی کرتا ہے تو اس کے نتائج ہوتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں چار چینل اس سے پہلے یہ نتائج بھگت چکے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہتک عزت کا قانون اور ضابطہ اخلاق مضبوط بنایا جائے، اور اس پر عمل درآمد ہو۔ اندرونی محتسب کا ادارہ قائم کیا جائے اور میڈیا کمپلینٹس کمیشن قائم کیا جائے۔
واشنگٹن میں پاکستانی روزنامے 'ڈان' کے نمائندے انور اقبال کا کہنا تھا کہ ضابطہ اخلاق رضاکارانہ طور پر بنے گا تو اس پر عمل نہیں ہوگا۔ قوانین بنانے پڑیں گے، انہیں نافذ کرنا پڑے گا، سزائیں مقرر کرنی پڑیں گی۔ دنیا کے ہر ملک میں اصول و ضوابط ہوتے ہیں۔ امریکہ میں، برطانیہ میں بھی کچھ ذمہ داری میڈیا کی ہوتی ہے، کچھ مالکان کی، کچھ حکومت کی، اور سب کو ان ذمہ داریوں کو پورا کرنا پڑتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں میڈیا کی یہ لڑائی حیران کن نہیں ہے۔ کئی طاقتیں ایک دوسرے سے دست و گریبان ہیں۔ ایک ادارے نے اپنی گرفت کم کی ہے تو دوسروں کو اپنی بات کہنے کا موقع ملا ہے۔ مشرف صاحب نے ایسے ہی میڈیا آزاد نہیں کیا تھا۔ آزادی ملنے کے بعد اب سب کو اس کیک میں سے اپنا حصہ چاہئے۔
انہوں نے کہا کہ یہ لڑائی مفاہمت یا ضابطہ اخلاق بنانے سے نہیں سلجھے گی۔ کچھ عرصے بعد پھر شروع ہو جائے گی۔ لیکن اس کے نتیجے میں چھن کر وہ صورتحال سامنے آئے گی، جس میں سب کے کردار واضح ہونگے۔
انور اقبال کا کہنا تھا کہ پاکستانی چینلز کی موجودہ مخاصمت کا موازنہ امریکی چینلز کے ساتھ کرنا غلط ہے، لیکن پاکستان میں صحافتی ذمہ داری کے فقدان کے ساتھ تربیت کی سخت کمی ہے۔ پروگرام کرنے سے پہلے کوئی نہیں سوچتا۔ ہمارے معاشرے میں اتنی مذہبی منافرت ہے کہ اگر کوئی چینل نشاندہی کرتا ہے کہ فلاں افراد کسی مذہبی گرو ہ کے ہیں تو اگلے دن ہجوم انہیں جاکر مار دیتا ہے۔
انور اقبال نے کہا کہ کیا امریکہ میں آپ سوچ سکتے ہیں کہ آٹھ گھنٹے تک سی آئی اے کے چیف کی تصویر دکھائیں اور کہیں کہ انہوں نے فلاں جرم کیا۔ ساری دنیا میں اصول ہے کہ الزام وہ لگایا جائے، جسے آپ ثابت کر سکیں۔ تو میرے خیال میں ہمارے صحافیوں کو تربیت کی ضرورت ہے۔ احساسِ ذمہ داری پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس بحران سے کسی نے کوئی سبق نہیں سیکھا، سب لڑتے رہیں گے، اپنی توانائی محفوظ کریں گے اور انتظار کریں گے کہ یہ وقت ٹل جائے۔ وقت ٹل جائے گا، جیو بند بھی نہیں ہوگا، لیکن لڑائی دوبارہ ہوگی۔ اور سب اسی طرح دوبارہ لڑیں گے۔
شاہین صہبائی کا کہنا تھا کہ ممکن ہے ہم سے کہیں کچھ زیادتی بھی ہوئی ہو، لیکن ہم کسی سے انتقام لینے کے لئے ایسا نہیں کر رہے تھے، ہم اپنا کام کر رہے تھے اور باقی لوگ اپنا کام نہیں کر رہے تھے۔
شاہین صہبائی 'وائس آف امریکہ' کے پروگرام 'انڈیپنڈنس ایونیو' میں پاکستانی میڈیا کے موجودہ بحران پر بات کر رہے تھے۔
انہوں نے کہا کہ لڑائی بنیادی طور پر مالکان کے درمیان ہے۔ مالکان پہلے اخبارات کو کنٹرول کرتے تھے، اب پروگرامز کو کنٹرول کرتے ہیں۔ کئی مالکان نے اس وجہ سے ٹی وی چینل شروع کئے کہ دوسرے گروپ کا نیچے گرانا ہے اور اسے ختم کرنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اتنے برسوں کی لڑائی کے بعد جنگ گروپ پریشر میں آیا ہے۔ میں مانتا ہوں کہ غلطیاں ہوئی ہیں، مگر سب کو پہلی دفعہ یہ موقع ملا ہے کہ جیو کو کیسے نقصان پہنچایا جائے۔
انہوں نے کہا کہ شاخ تو معلوم نہیں بچے گی یا نہیں، پورا درخت ہی شاید گر جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ صورتحال ہم پروفیشنل لوگوں کی ذمہ داری اور ناکامی بھی ہے۔ ہماری کونسل آف ایڈیٹرز کا کوئی کردار نہیں ہے، کیونکہ وہاں سب مالکان بیٹھتے ہیں۔ آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی میں بھی مالکان بیٹھتے ہیں۔ تو ایڈیٹرز کا رول کم ہو گیا۔ جو ایڈیٹرز موجود ہیں ان کا کوئی کردار نہیں ہے۔ پروفیشنل صحافیوں کو کوئی ایسی تنظیم بنانی چاہئے جہاں ان کی کوئی اہمیت ہو، اور وہ اپنا کردار تسلیم کراسکیں ۔
جیو نے آج تک جتنے سکینڈل بے نقاب کئے، ان میں 90 فیصد حقیقی ایشوز پر مبنی تھے۔ شاہین صہبائی، جنگ گروپ
شاہین صہبائی کا کہنا تھا کہ پاکستانی جمہوریت ابھی اتنی مضبوط نہیں ہوئی ہے کہ وہ ایسے معاملات سے اتنی آسانی سے نمٹ سکے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ابھی ہم ترکی ماڈل کے لئے تیار نہیں ہیں۔ ترکی میں سویلین حکومت نے دو تین الیکشن میں خود کو منوا کر ثابت کیا کہ سویلین ملک کے لئے بہتر ہیں، اور پھر فوج پر ہاتھ ڈال کر 40، 50 جرنیلوں کو برطرف کیا تھا اور کوئی اعتراض نہیں کر سکا تھا۔ پاکستان میں منتخب حکومت دھاندلی کے الزامات کے ساتھ اقتدار میں آتی ہے اور پہلے دن سے چاہتی ہے کہ آرمی چیف بھی اس کی مرضی کا ہو، آئی ایس آئی چیف کو بھی نکال دیں۔ تو پاکستان ابھی اس کے لئے تیار نہیں ہے اور حکومت کو احتیاط سے چلنا پڑے گا۔ اور لوگوں کو یہ باور کرانا پڑے گا کہ جمہوریت بہتر سسٹم ہے اور بہتر کام کرتا ہے۔
انگریزی روزنامے 'ایکسپریس ٹریبیون' کے سینئر ایڈیٹر ایم ضیاءالدین نے کہا کہ پاکستانی میڈیا خود اپنی آزادیاں کھونے کی تیاری کر رہا ہے۔ حامد میر پر حملے کے بعد حکومت نے فوراً ایک عدالتی کمیشن قائم کر دیا۔ پھر ایک مشترکہ تفتیشی ٹیم بنی، وزارت دفاع نے پیمرا میں جیو کے خلاف ایک چارج شیٹ پہنچا دی۔ اگر یہ نارمل سچویشن میں ہوتا تو ایک طریقہ کار پر عمل ہوتا، مگر مسئلہ اس لئے بڑھا کہ انڈسٹری میں لڑائیاں پہلے سے جاری تھیں۔
انہوں نے کہا کہ ایک سال پہلے ایک نئے چینل 'بول' کے آنے کا غلغلہ اٹھا، جس پر جیو نے الزام عائد کیا کہ اسے آئی ایس آئی کی سرپرستی حاصل ہے۔ پھرمبشر لقمان کی مہم شروع ہو گئی۔ ایک خیال ہے کہ چونکہ آئی ایس آئی ہرٹ ہوئی تھی، اس لئے مبشر لقمان اور 'اے آر وائی' کو استعمال کیا گیا۔ حامد میر کے واقعے کے بعد لڑائی اور کھل کر سامنے آگئی۔ پھر دوسرے چینل بھی اس میں شامل ہو گئے، جن کے جیو کے مالکان سے اپنے مسائل تھے، جب سب آپس میں گتھم گتھا ہوئے تو مسئلہ کچھ کا کچھ ہو گیا۔
ایم ضیاءالدین کا کہنا تھا کہ پاکستانی میڈیا نے چار فوجی حکومتوں کے دور میں کام کیا ہے۔ جب فوجی دور میں حکومت پر تنقید ہوتی ہے تو اس کا مطلب فوج پر تنقید ہوتی ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ جمہوری حکومت آنے کے بعد ہمارا ذہن تبدیل نہیں ہوتا۔ ان کا کہنا تھا کہ اداروں کا جتنا احترام واجب ہے، اس کا خیال رکھنا چاہئے۔
میڈیا کو سمجھنا ہوگا کہ منتخب سویلین حکومت کے دور میں بے جا مخاصمت کا رویہ درست نہیں
۔ایم ضیاءالدین، ایکسپریس ٹریبیون
انہوں نے کہا کہ صحافت کا کردار 'واچ ڈاگ' کا ہوتا ہے لیکن ایسا معلوم ہوتا تھا کہ جیو اور جسٹس افتخار چوہدری کے درمیان کوئی nexus بن گیا تھا۔ جس نے تمام میڈیا کو کنفیوز کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ پرنٹ جرنلزم میں زیر سماعت عدالتی مقدمے کے حوالے سے رپورٹنگ نہیں کی جاتی تھی، لیکن سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری صاحب نے اجازت دے رکھی تھی کہ کورٹ میں زیر سماعت معاملات کی خبروں کے ٹکرز چلائے جائیں، اور رات کے ٹاک شوز میں ان پر بات کی جائے۔ چاہے کسی ٹاک شو میزبان کو قانون کی سمجھ بوجھ ہو یا نہ ہو۔
ایم ضیاءالدین کے بقول اس وقت ایسا لگا جیسے سابق چیف جسٹس ہیرو بننا چاہتے تھے اور اس کے لئے انہوں نے زبردست طریقے سے جیو گروپ کو استعمال کیا۔ جبکہ جیو گروپ نے بھی سابق چیف جسٹس کو استعمال کیا۔ دوسرے چینلز نے بھی ایسا ہی کرنے کی کوشش کی اور میڈیا میں سب کچھ الٹ پلٹ ہو گیا۔
ایم ضیاءالدین کے بقول، چونکہ جیو کے پاس سب سے بڑا ڈھول تھا، اس لئے انہوں نے سب سے زیادہmess create کیا۔ ہر دوسرے دن کوئی خبر یا کالم چھپتا رہا کہ زرداری حکومت اب گئی کہ تب گئی۔ یہ کوئی ذمہ دار صحافت نہیں تھی۔
ایم ضیاءالدین نے خدشہ ظاہر کیا کہ آئی ایس آئی اتنی برہم ہے کہ وہ جیو کو معاف کرنے کے موڈ میں نہیں ہے۔ انہوں نے اپنی چارج شیٹ میں جیو کو غدار کہا ہے، پھر اس چارج شیٹ کو الیکٹرانک میڈیا کی ریگولیٹری باڈی کے پاس بھیجا جانا، جو ایک سرکاری ادارہ ہے، ایک خطرناک صورتحال ہے۔ اس پر توہین مذہب کے الزامات بھی شامل ہوگئے، جو یقیناً غلطی سے ہوا ہوگا۔ لیکن مسئلہ اب یہ ہے کہ میڈیا کے ادارتی فیصلے ہجوم کے ہاتھ میں دے دیئے گئے ہیں، مولانا کے ہاتھ میں دے دیے گئے ہیں، کیبل آپریٹرز کے ہاتھ میں دے دیے گئے ہیں، جو ایک بےحد سنگین صورتحال ہے۔
سینئر تجزیہ کار اور 'پاکستان یونین آف جرنلسٹس' کے سابق سیکرٹری جنرل مظہر عباس نے کہا کہ میڈیا اداروں کے کاروباری مفادات، موجودہ بحران کی تمام وجوہات پر حاوی ہیں۔ پاکستان میں الیکٹرانک میڈیا کی پچاس سے ساٹھ ارب روپے کی مارکیٹ ہے۔ جسے حاصل کرنے کے لئے ہر میڈیا گروپ نے کئی کئی چینل کھول لئے ہیں۔ ہر چینل دوسرے کی مارکیٹ چھیننا چاہتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ حامد میر پر حملے کے بعد صورتحال نے بے حد سنجیدہ رخ اختیار کر لیا ہے، کیونکہ پہلی مرتبہ اس معاملے میں ورکنگ جرنلسٹ بھی شامل ہو گئے ہیں۔ صورتحال کا سب سے منفی پہلو یہ ہے کہ چینلز نے ایک دوسرے کے خلاف سیاست دانوں کی طرح انتہائی نازیبا زبان استعمال کی۔
مظہر عباس نے 27 مئی کو پیمرا کے مجوزہ اجلاس کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ پاکستانی الیکٹرانک میڈیا ایک ادارے کے موثر نہ ہونے کا خمیازہ بھگت رہا ہے جو غیر فعال ہے۔ مالکان ایڈیٹر بنے بیٹھے ہیں اور اب انہوں نے نیوز اور کرنٹ افئیرز بھی کنٹرول کرنا شروع کر دیے ہیں۔ اینکرز کو بتایا جاتا ہے کہ پروگرام کا مہمان کون ہوگا، اور گفتگو کا کیا رخ ہوگا۔ وکلاء موومنٹ سے پہلے تک ایسا نہیں تھا، لیکن اس کے بعد پاکستانی میڈیا میں ایجنڈا سیٹ کرنے کی کوشش بھی نظر آئی۔
مظہر عباس کا کہنا تھا کہ پیمرا کا چئیرمین اور تمام اراکین حکومت نامزد کرتی ہے۔ اب مطالبہ یہ کیا جا رہا ہے کہ پیمرا کو غیر جانبدار ادارہ بنایا جائے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ہتک عزت کا قانون اتنا کمزور ہے، کہ لوگ اس طرف جاتے ہی نہیں۔
ہتک عزت کا قانون اور ضابطہ اخلاق مضبوط بنانے کی ضرورت ہے۔ -مظہر عباس، سینئر تجزیہ کار
انہوں نے کہا کہ اس وقت سارا دباؤ اینکرز پر ہے، ان سے غلطیاں ہوتی ہیں چاہیں وہ نیوز ہو، یا مارننگ شوز ہوں۔ جیسا کہ جیو کے مارننگ شو کے ساتھ ہوا۔ جو کہ ایک بڑی ادارتی غلطی تھی کہ ایک تفریحی پروگرام میں مذہب کا رنگ شامل کیا گیا۔ بعض حساس معاملات ایسے ہوتے ہیں جن کا خیال رکھنا ہی پڑتا ہے۔ مذہب یا حساس اداروں کی بات ہو، تو جب تک ڈائریکٹر نیوز یا کسی سینئر ایڈیٹر سے مشورہ نہ کرلیں، خبر کو نہیں چلانا چاہئے۔
مظہر عباس نے کہا کہ ایسے حساس معاملات پر لائیو شوز میں بیٹھ کر بات کی جا رہی ہے، جن کے بارے میں کسی کو اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ مہمان کیسی باتیں کریں گے۔ کچھ عرصے پہلے 'کیپٹل' ٹی وی کے ایک پروگرام میں ایک سابق آرمی چیف کو گالی دے دی گئی۔ جس پر وہ چینل فوری طور پر آف ایئر کر دیا گیا۔ اگر نشریات براہ راست نہ ہوتیں یا کوئی مضبوط ایڈیٹر ہوتا تو وہ چیز کبھی بھی اس طرح نشر نہیں ہو سکتی تھی۔
مظہر عباس نے کہا کہ کچھ عرصے قبل اسلام آباد میں سکندر نامی شخص کا جو واقعہ ہوا تھا، جہاں علم نہیں تھا کہ ایک بندوق بردار شخص سڑک پر کھڑا اب کیا کر دے گا، اس کے براہ راست انٹرویوز نشر کئے گئے۔ کسی کو علم ہی نہیں کہ 'ہوسٹیج سچویشن' میں کرنا کیا چاہئے۔ ایسا ادارتی کنٹرول کسی چینل میں ہمیں نظر نہیں آتا۔ اور ایک ایسے معاشرے میں جہاں عدم برداشت بہت زیادہ ہو، جہاں ذرائع ابلاغ کے درمیان مخاصمت کی ایسی فضا ہو، وہاں کوئی ادارہ اتنی بڑی غلطی کرتا ہے تو اس کے نتائج ہوتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں چار چینل اس سے پہلے یہ نتائج بھگت چکے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہتک عزت کا قانون اور ضابطہ اخلاق مضبوط بنایا جائے، اور اس پر عمل درآمد ہو۔ اندرونی محتسب کا ادارہ قائم کیا جائے اور میڈیا کمپلینٹس کمیشن قائم کیا جائے۔
واشنگٹن میں پاکستانی روزنامے 'ڈان' کے نمائندے انور اقبال کا کہنا تھا کہ ضابطہ اخلاق رضاکارانہ طور پر بنے گا تو اس پر عمل نہیں ہوگا۔ قوانین بنانے پڑیں گے، انہیں نافذ کرنا پڑے گا، سزائیں مقرر کرنی پڑیں گی۔ دنیا کے ہر ملک میں اصول و ضوابط ہوتے ہیں۔ امریکہ میں، برطانیہ میں بھی کچھ ذمہ داری میڈیا کی ہوتی ہے، کچھ مالکان کی، کچھ حکومت کی، اور سب کو ان ذمہ داریوں کو پورا کرنا پڑتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں میڈیا کی یہ لڑائی حیران کن نہیں ہے۔ کئی طاقتیں ایک دوسرے سے دست و گریبان ہیں۔ ایک ادارے نے اپنی گرفت کم کی ہے تو دوسروں کو اپنی بات کہنے کا موقع ملا ہے۔ مشرف صاحب نے ایسے ہی میڈیا آزاد نہیں کیا تھا۔ آزادی ملنے کے بعد اب سب کو اس کیک میں سے اپنا حصہ چاہئے۔
پاکستانی میڈیا کو صحافتی ذمہ داری سیکھنےکے ساتھ، تربیت کی بھی ضرورت ہے
۔انور اقبال، روزنامہ ڈان
انور اقبال کا کہنا تھا کہ پاکستانی چینلز کی موجودہ مخاصمت کا موازنہ امریکی چینلز کے ساتھ کرنا غلط ہے، لیکن پاکستان میں صحافتی ذمہ داری کے فقدان کے ساتھ تربیت کی سخت کمی ہے۔ پروگرام کرنے سے پہلے کوئی نہیں سوچتا۔ ہمارے معاشرے میں اتنی مذہبی منافرت ہے کہ اگر کوئی چینل نشاندہی کرتا ہے کہ فلاں افراد کسی مذہبی گرو ہ کے ہیں تو اگلے دن ہجوم انہیں جاکر مار دیتا ہے۔
انور اقبال نے کہا کہ کیا امریکہ میں آپ سوچ سکتے ہیں کہ آٹھ گھنٹے تک سی آئی اے کے چیف کی تصویر دکھائیں اور کہیں کہ انہوں نے فلاں جرم کیا۔ ساری دنیا میں اصول ہے کہ الزام وہ لگایا جائے، جسے آپ ثابت کر سکیں۔ تو میرے خیال میں ہمارے صحافیوں کو تربیت کی ضرورت ہے۔ احساسِ ذمہ داری پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس بحران سے کسی نے کوئی سبق نہیں سیکھا، سب لڑتے رہیں گے، اپنی توانائی محفوظ کریں گے اور انتظار کریں گے کہ یہ وقت ٹل جائے۔ وقت ٹل جائے گا، جیو بند بھی نہیں ہوگا، لیکن لڑائی دوبارہ ہوگی۔ اور سب اسی طرح دوبارہ لڑیں گے۔