چین، فلسطین اور مصر نے اپنے ہاں بھرپور انسداد پولیو مہم کے ذریعے اس وائرس پر قابو پایا تھا مگر گزشتہ چند سالوں میں وہاں پھر کچھ علاقوں میں پولیو وائرس کی موجودگی رپورٹ کی گئی اور تحقیقات سے معلوم ہوا کہ یہ اسی قسم کے وائرس تھے جو پاکستان میں پائے جاتے ہیں۔
اسلام آباد —
پاکستان میں اقوام متحدہ کے انسداد پولیو پروگرام کے سربراہ الیاس درے کا کہنا ہے کہ حال ہی میں شام میں پائے جانے والے پولیو وائرس کی تحقیقات سامنے نہیں آئیں لیکن اس بات کو قطعی خارج از امکان قرار نہیں دیا سکتا کہ یہ وائرس پاکستان سے منتقل ہوا ہو۔
انہوں نے خبردار کیا کہ وائرس کی منتقلی کا یہ عمل ایسے ہی جاری رہا تو پولیو وائرس سے پاک ممالک کی طرف سے پاکستان پر سفری پابندیاں بھی عائد کی جا سکتی ہیں۔
’’ایک مرتبہ آپ دیکھتے ہیں کہ پاکستانی وائرس مشرق وسطیٰ میں پھیل رہا ہے تو وبائی امراض کے مطالعے کے مطابق شام میں پائے جانے والے پولیو کے وائرس کا تعلق پاکستان سے ہونے کا امکان بہت زیادہ ہو جاتا ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ جہاں یہ وائرس پایا جاتا ہے وہ اپنے بچوں کو اس سے محفوط بنائیں اور اس کی منتقلی کو روکیں۔‘‘
چین، فلسطین اور مصر نے اپنے ہاں بھرپور انسداد پولیو مہم کے ذریعے اس وائرس پر قابو پایا تھا مگر گزشتہ چند سالوں میں وہاں پھر کچھ علاقوں میں پولیو وائرس کی موجودگی رپورٹ کی گئی اور تحقیقات سے معلوم ہوا کہ یہ اسی قسم کے وائرس تھے جو پاکستان میں پائے جاتے ہیں۔
پاکستان کا شمار دنیا کے ان تین ملکوں میں ہوتا ہے جہاں انسانی جسم کو اپاہج کر دینے والی بیماری پولیو کے وائرس پر تا حال پوری طرح قابو نہیں پایا جا سکا۔ دیگر دو ممالک میں افغانستان اور نائجیریا شامل ہیں۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے صحت ڈبلیو ایچ او کے مطابق سال رواں میں اب تک سامنے آنے والے 54 پولیو کیسز میں بیشتر پاکستان کے قبائلی علاقوں سے رپورٹ ہوئے ہیں جہاں شدت پسندوں کی دھمکیوں اور سلامتی کے خدشات کے باعث انسداد پولیو کے قطرے پلانے کی مہم شروع نہیں کی جا سکی ہے۔ شدت پسندوں کے حملوں میں اب تک انسداد پولیو مہم سے وابستہ لگ بھگ دو درجن افراد مارے جا چکے ہیں۔
ڈبلیو ایچ او کے سینئیر عہدیدار الیاس درے نے وائس آف امریکہ سے خصوصی انٹرویو میں بتایا کہ کراچی شہر میں بھی نئے پولیو کیسز پشتون آبادی میں رپورٹ ہوئے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ انسداد پولیو کے کارکنوں کی قبائلی علاقوں تک رسائی کو ممکن بنانے کے لیے عسکریت پسندوں سے بات چیت کرنی چاہیے۔
’’میرے خیال میں اس صورتحال سے نکلنے کا اصل راستہ سب کو اکٹھا کرتے ہوئے ہمیٕں ان علاقوں تک رسائی کے لیے راستہ تلاش کرنا چاہیے تاکہ معصوم بچوں کو (پولیو کی مرض) محفوظ بنایا جا سکے۔۔‘‘
انہوں نے کہا کہ قبائلی علاقوں تک انسداد پولیو کی ٹیموں کی رسائی کو یقینی بنانے کے لیے اقوام متحدہ حکومت کے ہر اقدام کی حمایت کرے گی۔
الیاس درے کا کہنا تھا کہ سلامتی کے خدشات اور پولیو ویکسین کے بارے میں پائے جانے والے غلط تاثر کے باعث پاکستان میں آئندہ سال تک پولیو وائرس کا خاتمہ ممکن نہیں۔ اقوام متحدہ کے عہدیدار کے بقول پولیو ویکسین حلال ہے اور اس میں ایسا کوئی جزو شامل نہیں جسے خاندانی منصوبہ بندی کے لیے استعمال کیا جائے۔
انہوں نے خبردار کیا کہ وائرس کی منتقلی کا یہ عمل ایسے ہی جاری رہا تو پولیو وائرس سے پاک ممالک کی طرف سے پاکستان پر سفری پابندیاں بھی عائد کی جا سکتی ہیں۔
’’ایک مرتبہ آپ دیکھتے ہیں کہ پاکستانی وائرس مشرق وسطیٰ میں پھیل رہا ہے تو وبائی امراض کے مطالعے کے مطابق شام میں پائے جانے والے پولیو کے وائرس کا تعلق پاکستان سے ہونے کا امکان بہت زیادہ ہو جاتا ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ جہاں یہ وائرس پایا جاتا ہے وہ اپنے بچوں کو اس سے محفوط بنائیں اور اس کی منتقلی کو روکیں۔‘‘
چین، فلسطین اور مصر نے اپنے ہاں بھرپور انسداد پولیو مہم کے ذریعے اس وائرس پر قابو پایا تھا مگر گزشتہ چند سالوں میں وہاں پھر کچھ علاقوں میں پولیو وائرس کی موجودگی رپورٹ کی گئی اور تحقیقات سے معلوم ہوا کہ یہ اسی قسم کے وائرس تھے جو پاکستان میں پائے جاتے ہیں۔
پاکستان کا شمار دنیا کے ان تین ملکوں میں ہوتا ہے جہاں انسانی جسم کو اپاہج کر دینے والی بیماری پولیو کے وائرس پر تا حال پوری طرح قابو نہیں پایا جا سکا۔ دیگر دو ممالک میں افغانستان اور نائجیریا شامل ہیں۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے صحت ڈبلیو ایچ او کے مطابق سال رواں میں اب تک سامنے آنے والے 54 پولیو کیسز میں بیشتر پاکستان کے قبائلی علاقوں سے رپورٹ ہوئے ہیں جہاں شدت پسندوں کی دھمکیوں اور سلامتی کے خدشات کے باعث انسداد پولیو کے قطرے پلانے کی مہم شروع نہیں کی جا سکی ہے۔ شدت پسندوں کے حملوں میں اب تک انسداد پولیو مہم سے وابستہ لگ بھگ دو درجن افراد مارے جا چکے ہیں۔
ڈبلیو ایچ او کے سینئیر عہدیدار الیاس درے نے وائس آف امریکہ سے خصوصی انٹرویو میں بتایا کہ کراچی شہر میں بھی نئے پولیو کیسز پشتون آبادی میں رپورٹ ہوئے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ انسداد پولیو کے کارکنوں کی قبائلی علاقوں تک رسائی کو ممکن بنانے کے لیے عسکریت پسندوں سے بات چیت کرنی چاہیے۔
’’میرے خیال میں اس صورتحال سے نکلنے کا اصل راستہ سب کو اکٹھا کرتے ہوئے ہمیٕں ان علاقوں تک رسائی کے لیے راستہ تلاش کرنا چاہیے تاکہ معصوم بچوں کو (پولیو کی مرض) محفوظ بنایا جا سکے۔۔‘‘
انہوں نے کہا کہ قبائلی علاقوں تک انسداد پولیو کی ٹیموں کی رسائی کو یقینی بنانے کے لیے اقوام متحدہ حکومت کے ہر اقدام کی حمایت کرے گی۔
الیاس درے کا کہنا تھا کہ سلامتی کے خدشات اور پولیو ویکسین کے بارے میں پائے جانے والے غلط تاثر کے باعث پاکستان میں آئندہ سال تک پولیو وائرس کا خاتمہ ممکن نہیں۔ اقوام متحدہ کے عہدیدار کے بقول پولیو ویکسین حلال ہے اور اس میں ایسا کوئی جزو شامل نہیں جسے خاندانی منصوبہ بندی کے لیے استعمال کیا جائے۔