جرمن وفاقی وزارت برائے تعلیم اور تحقیق کی جانب سے سائنس کے مختلف شعبوں میں پائیدار تحقیق کے سلسلے میں ہر سال گرین ٹیلنٹس ایوارڈ دیا جاتا ہے۔
رواں برس ایوارڈ پانے والے نوجوان سائنس دانوں میں پاکستانی سائنس دان نعیم رشید کا نام بھی شامل ہے، جنھیں پائیدار ترقی پر اپنے منفرد خیالات اور تحقیق کے لیے جامع نقطہ نظر پیش کرنے پر 'گرین ٹیلنٹس ایواڈ 2015 ' حاصل کیا ہے۔
برلن میں ہونے والی ساتویں گرین ٹیلنٹس ایوارڈ کی ایک شاندار تقریب میں فیڈرل منسٹری آف ایجوکیشن اینڈ ریسرچ کے ڈائریکٹر ولفرائیڈ کروس نے پائیدار ماحولیاتی توانائی پر بہترین تحقیقی منصوبہ پیش کرنے والے 27 نوجوان سائنس دانوں کو ایوارڈ سے نوازا۔
اس سال ایوارڈ پانے والے خوش نصیب سائنس دانوں کو نومبر کے مہینے میں دو ہفتے کے لیے ایک سائنس فورم میں شرکت کے لیے مدعو کیا گیا تھا جبکہ اگلے برس یہ سائنس دان اپنے منصوبے پر کام کرنے کے لیے جرمنی آئیں گے۔
فیڈرل منسٹری آف ایجوکیشن اینڈ ریسرچ کی ویب سائٹ کے مطابق گرین ٹیلنٹس ایوارڈ کے فاتحین کو جرمن ماہرین کی ایک اعلیٰ سطحی جیوری کی طرف سے منتخب کیا جاتا ہے اس سال گرین ٹیلنٹ ایوارڈ کے لیے دنیا کے 90 ممالک سے550 امیدواروں نے اپنی سائنسی تحقیق پیش کی تھی۔
ڈاکٹر نعیم رشید: ڈاکٹر نعیم رشید نے کوریا ایڈوانسڈ انسٹیٹیوٹ آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی سے سول اور ماحولیاتی انجنیئرنگ میں پی ایچ ڈی کیا ہے وہ پاکستان میں کامسٹس انسٹیٹیوٹ آف انفارمیشن ٹیکنالوجی میں تدریس کے شعبے سے منسلک ہیں اور اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر انھوں نے سستے ذرائع سے توانائی کی پیداوار پر اپنی تحقیق کو مرکوز رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔
32 سالہ ڈاکٹر رشید نے توانائی کے بحران اور ماحولیاتی آلودگی کے مسائل کے حل کے لیے دستیاب وسائل کے موثر استعمال کا منصوبہ اپنی تحقیق میں پیش کیا ہے۔
ان کی تحقیق فضلہ مواد اور مائیکرو ایلجی یا کائی سے بائیو توانائی کی پیداوار پر تھی جس کا حتمی ہدف قدرتی وسائل سے پاک ماحول دوست توانائی حاصل کرنے کے لیے ایک موثر اور اقتصادی عمل کو فروغ دینا ہے۔
اگرچہ یہ ایک غیر روایتی اور عجیب تحقیق ہے لیکن ڈاکٹر رشید نے ایلجی کے فوائد اور انفرادیت کو قابل تجدید توانائی کے ذرائع کے طور پر دریافت کیا ہے۔
ان کی تحقیق کا مقصد ایک نئی ٹیکنالوجی، مثال کے طور پر مائیکرو بیل ایندھن سیل بنانا بھی ہے جو مائیکرو ایلجی کو بائیو ایندھن کی پیداوار میں استعمال کر سکے۔
ان کی تحقیق کی منفرد خصوصیت یہ ہے کہ انھوں نے یہاں زیادہ عام استعمال ہونے والے تیل افژودہ بائیو ماس کو استعمال کرنے کے بجائے ایلجی کا استعمال کیا ہے۔
ڈاکٹر رشید کے مطابق توانائی، پائیدار ترقی اور ایک ملک کی اقتصادی ترقی کے لیے ایک لازمی جزو ہے اور وہ جانتے ہیں کہ ان کے اپنے ملک میں توانائی کا بحران ہے جبکہ دوسری طرف خراب معیار کے پانی کے استعمال سے سالانہ ہزاروں افراد کی جانیں ضائع ہو جاتی ہیں ان کا خیال ہے کہ فضلہ پانی کو قابل استعمال بنانے کی سہولیات میں کمی نے اس مسئلے کو انسانی صحت کے لیے ایک سنگین خطرہ بنا دیا ہے۔
پاکستان میں بائیو توانائی کو فروغ دینے کے لیے انھوں نے سستے اور مقامی طور پر دستیاب فضلہ مواد مثلاً پولٹری فضلہ اور باورچی خانے کے فضلے کا استعمال کیا ہے اور بائیو فیڈ اسٹاک کو بائیو گیس کی پیداوار میں استعمال کیا ہے۔
پانی قابل استعمال بنانے کی ٹریٹمنٹ میں انھوں نے ایلجی کو استعمال کیا ہے کیونکہ بائیو چارج فضلہ پانی میں شامل ڈائی اور بھاری دھاتوں کو علحیدہ کرنے یا جذب کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
جیوری کی جانب سے نئی ٹیکنالوجی کے لیے ڈاکٹر نعیم کے عزم کو سراہا گیا ہے مزید برآں اعلیٰ سطحی جیوری پائیدار توانائی کے نظام کے لیے ان کی سائنسی تلاش کے منصوبے سے بے حد متاثر ہوئی ہے۔