پاکستان کے نمائندۂ خصوصی کا دورۂ افغانستان: کیا طالبان سے تعلقات میں پیش رفت ہو گی؟

افغانستان کے لیے پاکستان کے نمائندۂ خصوصی محمد صادق نے اپنی تقرری کے بعد پہلا دورۂ کابل کیا ہے۔

  • افغانستان کے لیے پاکستان کے نمائندہ خصوصی محمد صادق نے رواں ماہ اپنی تقرری کے بعد پہلا دورۂ کابل کیا ہے۔
  • پاکستان کے نمائندۂ خصوصی نے ایسے موقعے پر افغانستان کا دورہ کیا ہے جب دو طرفہ تعلقات میں کشیدگی پائی جاتی ہے۔
  • مبصرین موجودہ حالات میں محمد صادق خان کے دورۂ کابل کو خصوصی اہمیت کا حامل قرار دے رہے ہیں۔
  • ٹی ٹی پی سے متعلق تحفظات دور کیے بغیر دو طرفہ تعلقات میں پیش رفت نہیں ہو سکتی: تجزیہ کار طاہر خان
  • پاکستانی سفارت کار کے حالیہ دورۂ کابل کے دوران طالبان حکومت نے ٹی ٹی پی کے 200 خاندانوں کو وسطی افغانستان منتقل کر دیا ہے: ماہر افغان اُمور سمیع یوسفزئی

اسلام آباد__افغانستان کے لیے حال ہی میں پاکستان کے نمائندۂ خصوصی مقرر ہونے والے محمد صادق نے کابل میں طالبان حکومت کے وزیر داخلہ سراج الدین حقانی سے ملاقات کی ہے۔

افغان وزارت داخلہ کے جاری کردہ بیان کے مطابق وزیر داخلہ سراج الدین حقانی نے اس بات پر زور دیا ہے کہ پاکستان اور افغانستان کا مل کر سیکیورٹی اور سیاسی مسائل حل کرنا وقت کی ضرورت ہے۔

بیان کے مطابق انہوں نے کہا کہ مسائل کا مشترکہ حل نہ صرف دونوں ممالک کے تعلقات کو خراب ہونے سے روک سکتا ہے بلکہ خطے میں امن و استحکام کے فروغ میں بھی مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔

رواں ماہ صادق خان کی افغانستان کے لیے نمائندہ خصوصی کے طور پر تقرری کے بعد یہ ان کا پہلا دورۂ کابل تھا۔

پاکستان کے نمائندۂ خصوصی نے ایسے موقعے پر افغانستان کا دورہ کیا ہے جب دو طرفہ تعلقات میں کشیدگی پائی جاتی ہے اور دونوں ممالک کے درمیان سرحدی علاقوں میں تناؤ کی صورتِ حال برقرار ہے۔

مبصرین موجودہ حالات میں محمد صادق خان کے دورۂ کابل کو خصوصی اہمیت کا حامل قرار دے رہے ہیں۔ تاہم ان کے نزدیک کسی فوری یا مثبت پیش رفت کے امکانات زیادہ روشن نہیں ہیں۔

’تعلقات معمول پر آنا مشکل ہے‘

سینئر تجزیہ کار طاہر خان کا کہنا ہے کہ سرحد پار تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے جنگجوؤں کی موجودگی کے باعث پاکستان اور افغانستان کے تعلقات معمول پر آنا مشکل دکھائی دیتا ہے۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگرچہ طالبان حکومت ٹی ٹی پی کی پاکستان کے اندر مداخلت سے انکار کرتی ہے۔ لیکن اقوام متحدہ کی رپورٹس کے مطابق افغانستان میں ٹی ٹی پی کے تقریباً چھ ہزار جنگجو موجود ہیں۔

طاہر خان کے مطابق جب تک ان معاملات پر جامع اور نتیجہ خیز بات چیت نہیں کی جاتی، دونوں ممالک کے درمیان تناؤ برقرار رہے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ مسئلہ حل کیے بغیر دو طرفہ تعلقات میں بہتری ممکن نہیں۔

تاہم، طاہر خان نے پاکستان کے نمائندہ خصوصی محمد صادق کے حالیہ دورے کو ایک مثبت قدم قرار دیا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان الزامات کی سیاست بہت بڑھ چکی تھی۔ ایسے حالات میں ایک دوسرے کے سامنے بیٹھ کر مسائل اور گلے شکوے سننا اور ان پر بات کرنا تعلقات میں بہتری کے لیے راستہ ہموار کر سکتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ افغانستان کی جانب سے جاری کردہ بیان میں بھی اس بات کا اعتراف کیا گیا ہے کہ مسائل موجود ہیں اور دونوں ممالک کو ان کے حل کے لیے اقدامات کرنے چاہئیں۔

’اعتماد بحال ہو سکتا ہے‘

افغان امور کے ماہر سمیع یوسفزئی کا کہنا ہے کہ سرحد سے متصل علاقوں میں کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی پناہ گاہوں سے متعلق پاکستان کے تحفظات رہے ہیں۔

سمیع یوسفزئی کا کہنا ہے کہ ان کی اطلاعات کے مطابق محمد صادق خان کے حالیہ دورۂ کابل کے دوران طالبان حکومت نے ٹی ٹی پی کے 200 خاندانوں کو گلان اور برمل کیمپ سے وسطی افغانستان منتقل کر دیا ہے جو ایک مثبت پیش رفت ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ اقدام پاکستان کے لیے ایک خوش آئند پیش رفت ہے اور دونوں ممالک کے درمیان اعتماد کی بحالی کے لیے اہم ثابت ہو سکتا ہے۔

سمیع یوسفزئی کا کہنا ہے کہ افغانستان کی سرزمین پر ٹی ٹی پی کی موجودگی پاکستان کی سیکیورٹی کے ایک جزوی چیلنج ضرور ہے لیکن اسے پاکستان کے تمام سیکیورٹی مسائل کی جڑ قرار نہیں دیا جاسکتا۔

انہوں نے کہا کہ ٹی ٹی پی کے حملے صرف سرحدی علاقوں تک محدود نہیں بلکہ پاکستان کے اندر سینکڑوں کلومیٹر دور علاقوں کو بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

ان کے بقول پاکستان کا اپنی سیکیورٹی کی خامیاں نظر انداز کرکے افغانستان کو مکمل طور پر مورد الزام ٹھہرانا مناسب نہیں ہے۔

اپنی حالیہ تقرری سے تین سال قبل بھی محمد صادق خان افغانستان کے لیے پاکستان کے نمائندۂ خصوصی کے عہدے پر تعینات رہ چکے ہیں۔

وہ 2023 میں اس عہدے سے سبکدوش ہوئے تھے۔ اس سے قبل 2008 سے 2014 تک افغانستان میں بطور پاکستانی سفیر خدمات انجام دے چکے ہیں۔

صادق خان کو افغان امور میں گہرا تجربہ حاصل ہے اور ان کے سفارتی کریئر کو دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے اہم سمجھا جاتا ہے۔