برطانیہ میں پاکستانی ون پاؤنڈ پھل فروش طالب علم

عمران

برطانیہ میں ون پاؤنڈ میں پھل فروشی کا طریقہ کافی پرانا ہے، مگر گذشتہ چند برسوں میں اس کا انداز ضرور بدل گیا ہے ۔
برطانیہ سے' ون پاؤنڈ فش' کے گانے سے شہرت حاصل کرنے والے پاکستانی طالب علم شاہد نذیر سے تو آپ سب ہی واقف ہوں گے،جنہوں نے مچھلی بیچنے کے لیے صدا لگانے کے بجائے ون پونڈ فش گانا گا کراپنے گاہکوں کو متوجہ کیا۔

شاہد جیسے کئی پاکستانی طالب علم لندن شہر میں اپنی قسمت آزمانے کی کوششیں کر رہے ہیں ۔ ان ہی میں ایسے پھل فروش بھی شامل ہیں، جو یہاں کی مصروف سڑکوں کے فٹ پاتھ پر ’ون پاؤنڈ پھل فروش‘ کے نام سے جانے جاتے ہیں۔

لندن میں بہت سےپاکستانی طالب علم محنت کشوں کی زندگی گذارنے پر مجبور ہیں ۔ جہاں انھیں دن بھر کی محنت کا بہت قلیل معاوضہ دیا جاتا ہے۔ یہ پھل فروش لندن کی سڑکوں پر ’’ون پاؤنڈ فروٹ ‘‘ کی آواز لگاتے ہوئے عام دکھائی دیتے ہیں ۔

لندن میں ’ہائی اسٹریٹ‘ سے خریداری کرنے کا رواج عام ہے۔ ایسی سڑکوں پر روزمرہ ضروریات زندگی کی اشیاء خریدنے والوں کا تانتا بندھا رہتا ہے ۔ پاکستانی طالب علم یہاں کی اکثر دوکانوں کے باہر ون پاؤنڈ پھل کا اسٹال لگاتے ہیں۔

اسی طرح لندن کی ایسی گلیاں جوخاص پیدل خریداری کرنے والوں کے لیےمخصوص ہوتی ہیں وہاں بھی ون پاؤنڈ پھل اور تازہ سبزی کا پیالہ بیچنے والوں کی اکثریت کا تعلق پاکستان ہوتا ہے۔

لندن میں میری ملاقات کئی پاکستانی پھل فروش امجد، ہیری اور محمد عمران سے ہوئی ۔ عمران نے بتایا کہ ،اس کا تعلق پاکستان کے شہر جہلم سے ہے ۔ وہ یہاں ایک طالب علم کی حیثیت سے آیا تھا ۔

عمران نے بتایا، ’’ تیز بارش ہو یا برف باری مجھےاپنا اسٹال لگانا ہوتا ہے۔ ہر روز صبح درجنوں پیالوں کو طرح طرح کے پھلوں سے بھرتا ہوں انھیں رنگوں کے حسین امتزاج کےساتھ ترتیب وار سجاتا ہے، تاکہ میرا اسٹال خوش نما نظر آئے۔ ‘‘

عمران نے بتایا کہ سپر مارکیٹ میں پھلوں کی قیمت زیادہ ہوتی ہے جبکہ ، وہ ون پاؤنڈ میں پھلوں سے بھرا ہوا پیالہ فروخت کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ،مقامی افراد ون پاؤنڈ پھل کے اسٹال سے ہر روز دو چار پھلوں کے پیالے ضرور خریدتے ہیں۔


نیاز خان کا تعلق افغانستان سے ہے جو بحیثیت طالب علم برطانیہ آئے ہے۔ ’’ون پاؤنڈ پھل کے اسٹال پر نوکری کرتے ہوئے مجھے زیادہ عرصہ نہیں ہوا ہے۔ مستقبل کے حوالے سے کوئی خواب نہیں دیکھتا ہوں، فی الحال تو شدید موسم اورنامساعد حالات دونوں سے ہی مقابلہ کر رہا ہوں۔‘‘ نیاز خان کا شمار ان ہی طالب علموں میں ہوتا ہے جن کا کالج بند ہو چکا ہے ۔

ایک قدرے درمیانی عمر کے حضرت ہمیں دیکھ کر زیر لب مسکرا رہے تھے معلوم ہوا کہ وہ بھی برطانیہ میں طالب علم کی حیثیت سے آئے ہیں اور گذشتہ تین برسوں سے ون پاؤنڈ پھل کا اسٹال لگا رہے ہیں۔
برفیلی ہواؤں کی شدت میں اضافہ ہوتا جارہا تھا یہاں تک کہ میرے دانت بجنےلگے ،ایسے میں یہ صاحب جنھوں نے اپنا نام اسد بتایا کچھ گنگناتے ہوئے پھل بیچ رہے تھے ۔ میرے ایک سوال پر انھوں نے کہا،’’ موسم کا کیا ہے وہ تو بدلتا رہتا ہے ۔ ہمیں تو اپنا کام پوری ایمانداری سے کرنا ہوتا ہے ۔‘‘
'
کیا آپ نے ون پاؤنڈ فش کی طرح ون پونڈ فروٹ پرکوئی گانا بنانے کا سوچا ہے؟

انہوں نے مسکراتے ہوئےکہا ’’میں یہاں اپنا گلوکاری کا شوق پورا کر لیتا ہوں اور جن کی سمجھ میں میرا گانا نہیں بھی آتا ہے وہ بھی مجھے دیکھ کر مسکراتے ہیں البتہ اس حوالے سے کوئی شاعری نہیں کی ہے۔‘‘

برطانیہ میں ون پاؤنڈ میں پھل فروشی کا طریقہ کافی پرانا ہے، مگر گذشتہ چند برسوں میں اس کا انداز ضرور بدل گیا ہے ۔ جہاں ان اسٹالوں پر کام کرنے والے مقامی باشندوں کی جگہ پاکستانی طالب علموں نے لے لی ہے۔

یہ پھل فروش گاہکوں کو اپنے اسٹال کی جانب متوجہ کرنے کے لیےوقتا فوقتا ون پاؤنڈ فروٹ ، ون پاؤنڈ فروٹ کی صدا لگا رہے تھے۔ اسد اب بھی کوئی گانا گنگنا رہے تھے جبکہ ،مجھے ایک کپ گرما گرم کافی کی طلب ہورہی تھی ۔