چين کے شہر ووہان سے پھيلتا ہوا کرونا وائرس اس وقت پوری دنيا کو اپنی لپيٹ ميں لے چکا ہے۔ چین میں اب کیسز کی تعداد بتدریج کم ہو رہی ہے جب کہ یورپ اور امریکہ میں کیسز کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے۔
پاکستان میں بھی کرونا وائرس تیزی سے پھیل رہا ہے اور اب تک درجنوں کیسز رپورٹ ہو چکے ہیں۔ کرونا وائرس کے باعث دُنیا بھر میں معمولات زندگی بری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔
ليکن چين کے شہر ووہان ميں گزشتہ کئی ہفتوں سے محصور پاکستانی طلبہ وہاں وائرس کا زور کم ہو جانے کے باوجود وطن واپس آنے کے لیے بیتاب ہیں۔
پاکستان کے صوبہ سندھ کے ضلع نواب شاہ سے تعلق رکھنے والے مير حسن کے مطابق چین کا شہر ووہان اب بھی لاک ڈاون میں ہے۔ نقل و حمل میں مکمل پابندی ہے، البتہ انتظامیہ نے اشیائے خورونوش کی ترسیل میں کوئی کمی نہیں آنے دی۔
وائس آف امريکہ سے بات کرتے ہوئے میر حسن نے کہا کہ چین میں کیسز اب ایک ہندسے میں آ گئے ہیں، اور حالات تیزی سے بہتری کی جانب جا رہے ہیں۔ میر حسن کا کہنا ہے کہ چین کی حکومت کی جانب سے ہنگامی بنیادوں پر تعمیر کیے گئے عارضی اسپتالوں میں سے بیشتر کو اب بند کر دیا گیا ہے۔
اُن کے بقول گزشتہ چند دنوں سے خوف کا ماحول اب کچھ کم ہوا ہے۔ البتہ اب بھی لوگوں میں اضطراب پایا جاتا ہے۔ آغاز میں لوگ وائرس کے ٹیسٹ کرانے سے کتراتے تھے۔ انتظامیہ سے تعاون نہ کرنے کی شکایات بھی عام تھیں۔ لیکن اس حکومتی اعلان کہ ٹیسٹ مثبت آنے والے کو 1400 ڈالر دیے جائیں گے کہ بعد ٹیسٹ کرانے کے رُجحان میں اضافہ ہوا۔
Your browser doesn’t support HTML5
مير حسن نے 2017 ميں چين کی ووہان يونيورسٹی سے ماسٹرز کی ڈگری مکمل کی جس کے بعد اب وہ ووہان کی ایک یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ گلاسکو یونیورسٹی میں وزٹنگ ریسرچر بھی ہیں۔
میر حسن گزشتہ ماہ اپنے والد کے انتقال پر بھی پاکستان نہیں آ سکے تھے۔ اُن کے بقول اُنہوں نے بہت کوشش کی لیکن پاکستان کی حکومت نے اُنہیں واپسی کی اجازت نہیں دی۔
میر حسن کہتے ہیں کہ وہ تحقیق کے شعبے سے وابستہ ہیں اور برطانیہ میں بھی وزٹنگ ریسرچر کے طور پر جاتے ہیں۔ اُن کے بقول وہ کام کرنا چاہتے ہیں، لیکن موجودہ صورتِ حال میں وہ کچھ بھی نہیں کر پا رہے۔ لہذٰا اُنہیں اسی صورت سکون مل سکتا ہے اگر وہ پاکستان آ جائیں۔
میر حسن کے بقول اس صورتِ حال کے باعث بہت سے طلبہ ڈپریشن میں چلے گئے ہیں۔ کئی طلبہ کو ہاضمے اور نیند نہ آنے کے مسائل درپیش ہیں۔ یہ سب پاکستان آنے کے لیے بے چین ہیں۔
اُنہوں نے بتايا کہ اُن کی والدہ ہر روز فون پر روتی ہيں اور واپس آنے کا کہتی ہيں۔ اُن کی بھی یہی خواہش ہے کہ جیسے ہی فلائٹس شروع ہوں وہ فوراً پاکستان آ جائیں۔
'ہاسٹل سے باہر جانے کی اجازت نہیں'
ووہان يونيورسٹی ميں سائنس اينڈ ٹيکنالوجی ميں ايم ايس کيمسٹری کے طالب علم محمد فرقان رؤف کے مطابق ووہان ميں صورتِ حال اب بھی غير يقينی ہے۔
وائس آف امريکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتايا کہ شہر مکمل طور پر لاک ڈاون ہے۔ کرونا وائرس کے کيسز ميں کمی ضرور آئی ہے۔ لیکن وہ اپنے ہاسٹل سے باہر نہیں جا سکتے۔
اُن کے بقول کھانے کا انتظام شروع کے دنوں ميں بہت نامناسب تھا تاہم اب وہ يونيورستی انتظاميہ کو پيسے دے ديتے ہيں۔ اور جو کچھ انکے آرڈر کے مطابق سپر مارکيٹ ميں دستياب ہوتا ہے اُنہیں مہیا کر دیا جاتا ہے۔ يونيورسٹی کی جانب سے ايک وقت کے لیے ابلے ہوئے چاول اور سبزی فراہم کی جاتی ہے۔
اُن کے بقول وہ حلال شاپ سے دالیں اور آٹا لاتے ہیں۔ کچن میں وہ خود کوکنگ کرتے ہیں۔ اس عرصے کے دوران حفاظتی اقدامات یعنی ماسک اور دستانوں کا استعمال کرنا پڑتا ہے۔ کبھی کبھار ہاسٹل کے دوستوں سے کچن میں سرسری ملاقات ہو جاتی ہے، ورنہ زیادہ تر وقت تنہائی میں گزرتا ہے۔
فرقان رؤف پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا کے ضلع کرک کے رہائشی ہیں۔ اُن کے والدین بھی اُن کی وطن واپسی کے خواہاں ہیں۔ فرقان خود بھی اس روٹین سے اُکتا چکے ہیں۔ فرقان کے بقول وہ پاکستان میں کرونا وائرس کے پھیلاؤ سے آگاہ ہیں۔ لیکن کم سے کم پاکستان میں بیماری کی صورت میں کوئی اپنا تیمارداری کے لیے تو موجود ہوتا ہے۔
چین ميں لگ بھگ ايک ہزار سے زائد پاکستانی طالب علم زیرِ تعليم ہيں۔ چین میں وبا پھوٹنے کے بعد ان طلبہ نے حکومتِ پاکستان سے اُنہیں وطن واپس بلانے کا مطالبہ کیا تھا۔ البتہ حکومت کا یہ موقف تھا کہ پاکستان میں وائرس کی ترسیل روکنے کے لیے ان طلبہ کو واپس نہ بلانا بہتر ہے۔
'چین میں رہنا ہی بہتر ہے'
ووہان يونيورسٹی ميں ايم فل کی طالبہ اقراء منير آغاز میں پاکستان جانے کی خواہش مند تھیں۔ لیکن اب پاکستان میں کرونا وائرس کے پھیلاؤ کے بعد اُن کی سوچ میں تبدیلی آئی ہے۔ اقراء کہتی ہیں کہ اُن کے لیے یہی بہتر ہے کہ وہ چین میں رہیں۔ وہ دو ماہ سے قرنطینہ میں ہیں اور اُن کے خون کا ٹیسٹ بھی منفی آیا ہے۔
وائس آف امريکہ سے بات کرتے ہوئے اقراء کا کہنا تھا کہ پہلے میرے والدین پریشان تھے۔ اب میں اپنے والدین کے لیے پریشان ہوں۔ اقراء کہتی ہیں کہ لاک ڈاؤن کے باعث کوئی بھی طالب علم ووہان نہیں چھوڑ سکتا۔ کیسز کم ہو رہے ہیں لیکن یونیورسٹی کھلنے کے حوالے سے تاحال کچھ نہیں بتایا گیا۔ اب آن لائن کلاسز شروع ہو گئی ہیں۔
اقراء خود کو خوش قسمت قرار دیتی ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ اگرچہ ایک ہی جگہ پر دو ماہ تک تنہائی میں رہنا مشکل مرحلہ تھا۔ طرح طرح کے خیالات کا مقابلہ کرنا، ڈپریشن اور خوف کی فضا میں خود کو حوصلہ دینا بہت مشکل تھا۔ لیکن اب وہ پاکستان میں اپنے عزیز و اقارب کے لیے پریشان ہیں۔