مسخ شدہ لاشوں کے واقعے کا از خود نوٹس خوش آئند: مبصرین

ڈاکٹر مہدی حسن کہتے ہیں کہ از خود نوٹس سے ایسے لوگوں کے حوصلے بلند ہوں گے جو علاقے میں امن کے لیے اور لوگوں کو انصاف پہنچانے کے لیے کام کر رہے ہیں۔
پاکستان کے جنوب مغربی صوبے بلوچستان کے ضلع خضدار سے کم ازکم 13 مسخ شدہ لاشوں کی برآمدگی کے واقعے پر سپریم کورٹ کے از خود نوٹس کو مبصرین ایک خوش آئند قدم تو قرار دیتے ہیں تاہم ان کا کہنا ہے کہ صوبے کے حالات خصوصاً ماضی قریب کی صورتحال کے تناظر میں یہ واقعہ کوئی انہونی نہیں اور ایسے واقعات کے تدارک کے لیے مزید موثر اور ٹھوس اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔

گزشتہ ہفتے خضدار کے علاقے سے حکام کو 13 مسخ شدہ لاشیں ملی تھیں جس کے بعد خصوصاً صوبے سے جبری گمشدہ ہونےو الے افراد کے لواحقین میں تشویش کی لہر دوڑ گئی تھی۔

عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی نے اس واقعے کا از خود نوٹس لیتے ہوئے صوبائی پولیس کے سربراہ اور خضدار کے ڈپٹی کمشنر کو چار فروری کو پیش ہونے کا حکم دیا ہے۔

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے سابق چیئرمین ڈاکٹر مہدی حسن نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ احتساب اور کڑی سزا کو یقینی بنانے سے ایسے واقعات کو دوبارہ رونما ہونے سے روکا جاسکتا ہے۔

’’ بلوچستان (دور افتادہ) علاقہ ہے وہاں اس طرح کی کوریج بھی نہیں ہوتی میڈیا سے جیسے باقی جگہوں پر ہوتی ہے اور اس کا خیال بھی رہتا ہے لوگوں کو کہ میڈیا میں آجائے گی بات تو کیا ان پر کیا اثر پڑے گا۔ بلوچستان کے سلسلے میں یہ خوف بھی نہیں ہے کسی کو اور جو حالات ہیں وہاں پر اس میں عدالت کا از خود نوٹس لینا ہوسکتا ہے کہ حوصلہ بلند ہو ان لوگوں کا جو کام کرتے ہیں وہاں امن کے لیے یا جمہوریت کے لیے یا انصاف مہیا کرنے کے لیے۔‘‘

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے خضدار سے برآمد ہونے والی والوں لاشوں کی تعداد 15 بتائی ہے جب کہ بعض اطلاعات کے مطابق یہ دو درجن سے بھی زائد ہوسکتی ہیں۔

صوبائی وزیر داخلہ سرفراز بگٹی یہ کہہ چکے ہیں کہ لاشوں کا ڈی این اے ٹیسٹ کیا جائے گا اور اس واقعے کی تحقیقات کے لیے ایک عدالتی کمیشن بھی تشکیل دیا جا چکا ہے۔

دریں اثناء بلوچستان کے علاقے ڈیرہ بگٹی سے تقریباً نو سال قبل نقل مکانی کرنے والے قبائلیوں کی واپسی شروع ہوگئی ہے۔

یہ افراد 2005ء میں علاقے میں فوجی کارروائی اور بدامنی کی وجہ سے نقکل مکانی کر گئے تھے۔

گزشتہ ماہ ان افراد کو سکیورٹی حکام نے یہ کہہ کر علاقے میں جانے سے روک دیا تھا کہ وہاں حالات ساز گار نہیں تاہم ان افراد کی رجسٹریشن کے بعد ہفتہ کو انھیں مرحلہ وار واپس جانے کی اجازت دے دی گئی۔