وفاقی وزیرداخلہ چودھری نثار علی خان نے کہا کہ یہ فیصلہ سپریم کورٹ کی ہدایت پر تشکیل دی گئی کمیٹی کی پرویز مشرف سے تحقیقات کی رپورٹ کی روشنی میں کیا گیا۔
اسلام آباد —
پاکستان کی حکومت نے سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے خلاف آئین کی شق چھ کے تحت کارروائی کرنے کے لیے عدالت عظمیٰ سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
اتوار کو اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیرداخلہ چودھری نثار علی خان نے کہا کہ یہ فیصلہ سپریم کورٹ کی ہدایت پر تشکیل دی گئی کمیٹی کی پرویز مشرف سے تحقیقات کی رپورٹ کی روشنی میں کیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ پیر کو حکومت سپریم کورٹ سے رجوع کرے گی اور جلد ہی حکومت کی طرف سے پراسیکیوٹر بھی مقرر کر دیا جائے گا۔
’’حکومت پاکستان نے فیصلہ کیا ہے کہ اس رپورٹ کی روشنی میں، سپریم کورٹ کی ہدایت کی روشنی میں آئین کے آرٹیکل چھ کی روشنی میں یہ کیس ایسا ہے کہ جس میں ہم سپریم کورٹ کو باقاعدہ ایک تین رکنی کمیشن تشکیل دینے کے لیے کمپلینٹ کریں تاکہ جنرل مشرف کے خلاف آرٹیکل چھ کے تحت کارروائی کا آغاز کیا جاسکے۔‘‘
پرویز مشرف پر الزام ہے کہ انھوں نے تین نومبر 2007ء کو ملک کا آئین معطل کرکے اعلیٰ عدلیہ کے ججز کو نظر بند کیا تھا۔ ججز نظر بندی کے ایک مقدمے میں ان کی ضمانت ہوچکی ہے جب کہ آئین معطل کرنے کی پاداش میں ان پر غداری کا مقدمہ چلانے کے لیے درخواستیں سپریم کورٹ میں دائر کی گئی تھیں۔
عدالت عظمیٰ نے ان درخواستوں کی سماعت کے بعد حکومت کو ہدایت کی تھی کہ وہ اس بارے میں تحقیقات کرے۔
وفاقی وزیرداخلہ کا کہنا تھا کہ حکومت نے غیر جانبداری سے تحقیقاتی کمیشن تشکیل دیا جس نے اپنا کام مکمل کر لیا ہے۔ ان کے مطابق اس میں کسی طرح کی رنجش یا ذاتی عناد ہر گز شامل نہیں۔
’’ ہم نے اپنی ذمہ داری پوری کی ایف آئی اے کی ٹیم تشکیل دی۔ جنرل مشرف اس کمیشن کے سامنے پیش ہونے سے انکاری تو نہیں تھے بس تاریخ آگے پیچھے کر رہے تھے۔۔۔بہت سارے بیانات کمیشن نے حاصل کیے، کچھ نہیں بھی ہو سکے،جس نکتے پر وہ پہنچنا چاہتے تھے اس کے لیے شواہد ان کے پاس موجود ہیں۔‘‘
پرویز مشرف نے 12 اکتوبر 1999ء کو اس وقت کے وزیراعظم نوازشریف کی حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار حاصل کیا تھا اور وہ ملک کے تقریباً نو سال سے زائد عرصے تک صدر رہے۔
پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ کسی سابق فوجی سربراہ اور صدر کے خلاف آرٹیکل چھ کے تحت کارروائی ہونے جارہی ہے۔ اگر آئین توڑنے کا الزام ثابت ہوجاتا ہے تو انھیں موت کی سزا ہوسکتی ہے۔
پرویز مشرف اپنی چار سالہ خود ساختہ جلاوطنی ختم کرکے رواں سال مارچ میں وطن واپس آئے جہاں انھیں مختلف مقدمات کی وجہ سے سب جیل قرار دیے جانے والے اپنے فارم ہاؤس پر حراست میں رہنا پڑا۔ رواں ماہ کے اوائل میں عدالتوں کی طرف سے ضمانتیں منظور ہونے کے بعد رہا کر دیا گیا۔
اتوار کو اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیرداخلہ چودھری نثار علی خان نے کہا کہ یہ فیصلہ سپریم کورٹ کی ہدایت پر تشکیل دی گئی کمیٹی کی پرویز مشرف سے تحقیقات کی رپورٹ کی روشنی میں کیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ پیر کو حکومت سپریم کورٹ سے رجوع کرے گی اور جلد ہی حکومت کی طرف سے پراسیکیوٹر بھی مقرر کر دیا جائے گا۔
’’حکومت پاکستان نے فیصلہ کیا ہے کہ اس رپورٹ کی روشنی میں، سپریم کورٹ کی ہدایت کی روشنی میں آئین کے آرٹیکل چھ کی روشنی میں یہ کیس ایسا ہے کہ جس میں ہم سپریم کورٹ کو باقاعدہ ایک تین رکنی کمیشن تشکیل دینے کے لیے کمپلینٹ کریں تاکہ جنرل مشرف کے خلاف آرٹیکل چھ کے تحت کارروائی کا آغاز کیا جاسکے۔‘‘
پرویز مشرف پر الزام ہے کہ انھوں نے تین نومبر 2007ء کو ملک کا آئین معطل کرکے اعلیٰ عدلیہ کے ججز کو نظر بند کیا تھا۔ ججز نظر بندی کے ایک مقدمے میں ان کی ضمانت ہوچکی ہے جب کہ آئین معطل کرنے کی پاداش میں ان پر غداری کا مقدمہ چلانے کے لیے درخواستیں سپریم کورٹ میں دائر کی گئی تھیں۔
عدالت عظمیٰ نے ان درخواستوں کی سماعت کے بعد حکومت کو ہدایت کی تھی کہ وہ اس بارے میں تحقیقات کرے۔
وفاقی وزیرداخلہ کا کہنا تھا کہ حکومت نے غیر جانبداری سے تحقیقاتی کمیشن تشکیل دیا جس نے اپنا کام مکمل کر لیا ہے۔ ان کے مطابق اس میں کسی طرح کی رنجش یا ذاتی عناد ہر گز شامل نہیں۔
’’ ہم نے اپنی ذمہ داری پوری کی ایف آئی اے کی ٹیم تشکیل دی۔ جنرل مشرف اس کمیشن کے سامنے پیش ہونے سے انکاری تو نہیں تھے بس تاریخ آگے پیچھے کر رہے تھے۔۔۔بہت سارے بیانات کمیشن نے حاصل کیے، کچھ نہیں بھی ہو سکے،جس نکتے پر وہ پہنچنا چاہتے تھے اس کے لیے شواہد ان کے پاس موجود ہیں۔‘‘
پرویز مشرف نے 12 اکتوبر 1999ء کو اس وقت کے وزیراعظم نوازشریف کی حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار حاصل کیا تھا اور وہ ملک کے تقریباً نو سال سے زائد عرصے تک صدر رہے۔
پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ کسی سابق فوجی سربراہ اور صدر کے خلاف آرٹیکل چھ کے تحت کارروائی ہونے جارہی ہے۔ اگر آئین توڑنے کا الزام ثابت ہوجاتا ہے تو انھیں موت کی سزا ہوسکتی ہے۔
پرویز مشرف اپنی چار سالہ خود ساختہ جلاوطنی ختم کرکے رواں سال مارچ میں وطن واپس آئے جہاں انھیں مختلف مقدمات کی وجہ سے سب جیل قرار دیے جانے والے اپنے فارم ہاؤس پر حراست میں رہنا پڑا۔ رواں ماہ کے اوائل میں عدالتوں کی طرف سے ضمانتیں منظور ہونے کے بعد رہا کر دیا گیا۔