ہندو ’میرج بل‘ کا مسودہ قومی اسمبلی سے منظور

فائل فوٹو

سینیٹ سے منظوری کے بعد یہ باقاعدہ قانون بن جائے گا جس کے تحت ہندو برادری سے تعلق رکھنے والے افراد اپنی شادی کی رجسٹریشن کروانے کے پابند ہوں گے۔

پاکستان کی پارلیمان کے ایوان زیریں یعنی قومی اسمبلی نے 'ہندو میرج بل 2016' منظور کر لیا ہے اور اب یہ مسودہ قانون ایوان بالا یعنی سینیٹ میں منظوری کے لیے پیش کیا جائے گا۔

سینیٹ سے منظوری کے بعد یہ باقاعدہ قانون بن جائے گا جس کے تحت ہندو برادری سے تعلق رکھنے والے افراد اپنی شادی کی رجسٹریشن کروانے کے پابند ہوں گے۔

ہندو برادری سے تعلق رکھنے والے افراد کی شادی کی رجسٹریشن کا پاکستان میں کوئی قانونی طریقہ کار موجود نہیں ہے، اسی لیے ملک کی ہندو برادری کا دیرینہ مطالبہ رہا ہے کہ ایسا قانون وضع کیا جائے جو ان کی شادی کو باقاعدہ رجسٹر کر کے ان کے حقوق کا تحفظ کر سکے۔

قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قانون اور انصاف کے چیئرمین محمود بشیر ورک نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ اس بل کی قومی اسمبلی سے منظوری سے ہندو برداری کا ایک دیرینہ مطالبہ پورا ہو گیا ہے۔

" یقیناً اس کی بہت ضرورت تھی، اس سے پہلے ہندو شادی کے لیے نا تو کوئی قانون تھا نا کوئی ضابطہ تھا اور نا ہی کسی کے پاس قانونی طور پر کوئی دستاویزات تھی اور اگر کسی نے پاسپورٹ بنانا ہو، ملک سے باہر جانا ہوں تو اس حوالے سے بہت سے مسائل تھے اور جب یہ باقاعدہ قانون بن جائے گا تو اس سے (ہندو برداری کے لیے ) آسانیاں ہو ں گی۔"

محمود بشیر ورک نے کہا کہ اٹھارویں آئینی ترمیم کی منظوری کے بعد شادی اور دیگر کئی معاملات سے متعلق قانونی سازی کا اختیار صوبوں کو حاصل ہو گیا تھا اور وہ توقع کرتے ہیں کہ تمام صوبے بھی اس حوالے سے قانونی سازی کریں گے۔

"ہم نے وفاق کی سطح پر یہ کام کر لیا ہے۔۔۔ خیبر پختونخواہ اور بلوچستان نے اس بل کو قبول کر لیا ہے، سندھ نے پہلے ہی ایک الگ قانون بنا لیا ہے تاکہ شادی کی رجسٹریشن یونین کونسل میں ہو۔ ہم کوشش کریں گے پنجاب والے بھی اس کو قبول کر لیں اور میں توقع کرتا ہوں کہ ہندو بھائیوں اور برادری کے لیے یہ بڑا مفید رہے۔"

حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ ( ن) کے رکن قومی اسمبلی رمیش کمار جو کافی عرصے سے اس بل کو منظور کروانے کے لیے سرگرم رہے ہیں، نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ اگرچہ اس بل کے بارے میں ان کے بعض تحفظات دور نہیں ہو سکے ہیں اس کے باوجود ان کے بقول یہ ایک اچھی پیش رفت ہے۔

"اس بل میں میں ایک نکتہ لکھنا چاہتا تھا کہ اٹھارہ سال سے کم عمر کی لڑکی اور لڑکا شادی نہیں کر سکتا تھا ۔۔۔ ایسا کرنے سے جبری شادی (کے واقعات) رک جاتے اور دوسرا میں نے کہا تھا کہ جب تک شادی ختم نہیں ہو جاتی تو وہ (بیوی یا شوہر) کوئی دوسرا مذہب اختیار نہیں کر سکتے۔۔ ان دو نکات پر مجھے حمایت نہیں ملی لیکن جو ہماری بنیادی چیزیں تھیں ان سب کا اس بل میں خیال رکھا گیا ہے۔"

تاہم محمود بشیر ورک نے کہا کہ قانونی طور پر اٹھارہ سال یا زائد عمر کے لڑکے یا لڑکی کو قانونی طور اپنی رضامندی سے شادی کرنے کا حق حاصل ہے اور اگر کوئی کسی کو جبری شادی پر مجبور کرتا ہے تو قانون میں کسی طور اس بات کی اجازت نہیں اور اس کی خلاف ورزی کرنے والوں کے لیے قانون میں سخت سزا ہے۔

پاکستان دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والوں میں ہندو برادری نمایاں ہے اور اُن کی اکثریت پاکستان کے جنوبی صوبے سندھ میں مقیم ہے۔

قومی اسمبلی سے ہندو میرج بل کے پاس ہونے کو سماجی حلقے ایک اچھی پیش رفت قرار دے رہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ یہ قانون عملی طور پر بن جانے کے بعد ہندو برادری سے تعلق رکھنے والوں کے حقوق کو قانونی تحفظ حاصل ہو جائے گا۔