وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ پاکستان اور امریکہ کو دہشت گردی کے خلاف مشترکہ حکمت عملی اپنانا ہوگی بصورت دیگر اس کا فائدہ دشمن کو ہوگاجو ناصرف بزدل بلکہ بے رحم بھی ہے۔ اُنھوں نے یہ بات منگل کو امریکی سینیٹ کی آرمڈ سروسز کمیٹی کے چیئرمین کارل لیون سے وزیراعظم ہاؤس میں ملاقات کے دوران کہی۔
سرکاری بیان کے مطابق وزیراعظم گیلانی نے پاک امریکہ تعلقات کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ دونوں ممالک کے تعلقات صرف دہشت گردی کے خلاف جنگ میں تعاون تک محدود نہیں رہنے چاہئیں بلکہ ان کے دائر ہ کار کودوطرفہ دیرپا تعلقات تک وسعت دینی چاہیئے جس کا فائدہ پاکستانی اور امریکی عوام کو پہنچے۔
بیان کے مطابق سینیٹر کارل لیون نے پاک امریکہ تعلقات کو دوبارہ برابری کی سطح پر لانے کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ دونوں ممالک ایک مشترکہ دشمن کے خلاف لڑرہے ہیں ۔ ملاقات میں افغانستان میں قیام امن سے متعلق تجاویز پر بھی تبادلہ خیا ل کیاگیا۔
وزیراعظم گیلانی نے کہا کہ اُن کا ملک افغانستان میں قیام امن کا خواہاں ہے اور افغان مسئلے کے حل میں پاکستا ن کو کلیدی حیثیت حاصل ہے۔ بظاہرپاکستان کے قبائلی علاقوں کے راستے افغانستان میں دراندزی کے الزامات کا جواب دیتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ یہ بات باعث حیرت ہے کہ جدید اسلحے سے لیس نیٹو اور ایساف فورسز کی موجودگی میں شدت پسند کیسے افغانستان میں داخل ہو سکتے ہیں۔
پاک امریکہ تعلقات کی بحالی کے لیے امریکی وزیر خارجہ ہلری کلنٹن کے کردار کو سراہتے ہوئے وزیر اعظم گیلانی نے کہا کہ ایک ایسے وقت جب واشنگٹن میں پاکستان کی امداد بند کرنے کی باتیں ہو رہی تھی تو ہلری کلنٹن نے خارجہ اُمور کمیٹی کوایک خط میں لکھا کہ مجوزہ پابندیاں امریکہ کہ خارجہ پالیسی اور سفارت کاری کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہیں۔
وزیراعظم گیلانی نے گذشتہ ہفتے وزیرخارجہ ہلری کلنٹن کے اپنی پاکستانی ہم منصب حنا ربانی کھر سے ٹیلی فون پر ہونے والے رابطے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس دوران بھی امریکی وزیر خارجہ نے پاکستان کے ساتھ دیر پاشراکت کے لیے دونوں ملکوں کے درمیان ہونے والی بات چیت پر تبادلہ خیال کیا۔
دو مئی کو ایبٹ آباد میں اْسامہ بن لادن کے خلاف خفیہ امریکی آپریشن کے بعد دونوں ملکوں کے تعلقات کشیدہ ہو گئے تھے ۔ بظاہر اسی کشیدگی کے باعث پاکستان میں تعینات امریکی سفارت کاروں کو حالیہ ہفتوں میں پشاور کا سفر کرنے کاباز رکھنے کے متعدد واقعات بھی سامنے آئے ہیں ۔ اطلاعات کے مطابق پیر کوبھی پشاور جانے والے سفارتکاروں کو پولیس نے رکنے کا اشارہ کیا لیکن وہ گاڑی روکنے کی بجائے امریکی قونصل خانے پہنچ گئے۔
لیکن امریکی سفارت خانے کے ایک بیان میں ان اطلاعات کی تردید کرتے ہوئے کہا گیا کہ امریکی عہدیدار سرکاری دورے پر اسلام آباد سے پشاور جارہے تھے اور اُنھوں نے جنرل ہیڈ کوارٹر سے اجازت نامہ بھی حاصل کر رکھاتھا۔ بیان کے مطابق پاکستان میں امریکی سفارت خانے کا تمام عملہ ملکی قوانین کی پاسداری کرتا ہے۔
پاکستان کا کہنا ہے کہ امریکہ سمیت کسی بھی ملک کے سفارتکاروں پر سفری پابندیاں عائدنہیں کی گئی ہیں البتہ غیر ملکی سفارتی عملے کی اندرون ملک نقل و حرکت کے بار ے میں قواعد وضوابط موجود ہیں جن کا مقصد سفارت کاروں کی حفاظت کو یقینی بنانا ہے۔