توقع ہے کہ کئی یورپی ملک ووٹ ڈالنے سے احتراز کریں گے اور امریکہ اور اسرائیل سمیت کچھ ملک جو فلسطین کو مملکت کا درجہ دینے کے یک طرفہ اقدام کے مخالف ہیں، قرار داد کے خلاف ووٹ دیں گے۔
اقوام متحدہ —
فلسطینی اتھارٹی اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اپنی حیثیت کو بہتر بنانے کی کوشش کر رہی ہے۔ گذشتہ سال اس نے اقوامِ متحدہ کی مکمل رکنیت حاصل کرنے کی کوشش کی تھی لیکن یہ کوشش سلامتی کونسل میں کامیاب نہیں ہو سکی۔
اسرائیل کے ساتھ امن کے عمل میں پیش رفت کے فقدان سے تنگ آکر، فلسطینی اتھارٹی نے گذشتہ نومبر میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی کمیٹی سے کہا کہ اس کی رکنیت کی درخواست پر غور کیا جائے ۔ کمیٹی مکمل رکنیت کی سفارش پر متفق نہ ہو سکی اور یہ کوشش مزید کسی کارروائی کے بغیر ختم ہو گئی ۔
اس ہفتے، فلسطینی اتھارٹی نے مختلف راستہ اختیار کیا ہے۔ وہ اب ایسے ملک کی حیثیت سے جو جنرل اسمبلی کا رکن نہیں ہے، مبصر کا درجہ حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے ۔
جمعرات کے روز، جو فلسطینی عوام کے ساتھ یکجہتی کا بین الاقوامی دن ہے، فلسطین کے صدر محمود عباس جنرل اسمبلی سے خطاب کریں گے ۔
اقوامِ متحدہ میں فلسطین کے سفیر ریاض منصور کہتے ہیں کہ تقریباً 60 ملک یہ قرارداد پیش کر رہے ہیں اور انہیں توقع ہے کہ اس کی منظوری کے لیے مطلوبہ سادہ اکثریت حاصل ہو جائے گی۔
لیکن توقع ہے کہ کئی یورپی ملک ووٹ ڈالنے سے احتراز کریں گے اور امریکہ اور اسرائیل سمیت کچھ ملک جو فلسطین کو مملکت کا درجہ دینے کے یک طرفہ اقدام کے مخالف ہیں، قرار داد کے خلاف ووٹ دیں گے۔
جارج واشنگٹن یونیورسٹی میں سیاسیات کے پروفیسر ایڈمنڈ غریب بتاتے ہیں کہ بین الاقوامی سطح پر بہتر حیثیت ملنے سے، فلسطینیوں کو کیا فوائد حاصل ہو سکتے ہیں۔
’’ اس اقدام کے نتیجے میں ،کسی حد تک، دنیا کی توجہ پھر اس مسئلے کی طرف مبذول ہو جائے گی۔ اس کے علاوہ، اس طرح فلسطینی موقف کو قانونی حیثیت حاصل ہو جائے گی اور فلسطینی اتھارٹی کی پوزیشن بھی زیادہ مضبوط ہو جائے گی۔ فلسطینیوں کے لیے پیشگی شرائط کے بغیر یا بستیاں بسانے کا سلسلہ ختم کیے یا ان کی تعمیر کو منجمد کیے بغیر، اسرائیلیوں کے ساتھ مذاکرات کرنا آسان ہو جائے گا۔‘‘
فلسطینی اتھارٹی کا درجہ بلند ہونے سے، فلسطینیوں کے لیے اقوامِ متحدہ میں رجسٹرڈ شدہ بین الاقوامی معاہدوں میں ، نیز ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن، اور انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن جیسی تنظیموں میں شامل ہونے کا راستہ کھل جائے گا۔ وہ انٹرنیشنل کرمنل کورٹ کے رکن بھی بن سکتے ہیں۔ اگر رکنیت قبول کر لی جاتی ہے، تو فلسطینی اتھارٹی پراسیکیوٹر سے درخواست کر سکتی ہے کہ فلسطینی علاقوں میں اسرائیلی اقدامات کی تفتیش کی جائے۔
رکنیت کے بغیر ملک کا درجہ حاصل کرنے کے کچھ منفی نتائج بھی بر آمد ہو سکتے ہیں۔
امریکہ فلسطینی اتھارٹی کو ملک کا درجہ دینے کی مخالفت کرتا رہا ہے ۔ اس کا کہنا ہے کہ فلسطینی ریاست کا قیام صرف مذاکرات کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ پیر کے روز محکمہ خارجہ کی ترجمان وکٹوریہ نلینڈ نے کہا کہ گذشتہ ہفتے وزیرِ خارجہ ہلری کلنٹن نے صدر عباس کو بتایا کہ امریکہ کا موقف تبدیل نہیں ہوا ہے۔
’ ہمارے خیال میں اس اقدام سے فلسطین کے لوگوں کے لیے مملکت کے حصول کی منزل قریب نہیں آئے گی۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ایسا کرنا غلطی ہو گی۔ ہم اس کے مخالف ہیں اور اس کی مخالفت کریں گے۔‘‘
امریکہ نے فلسطینیوں کے لیے 50 کروڑ ڈالر کی رقم مختص کی تھی ۔ نیو یارک یونیورسٹی کے سینٹر فار گلوبل افیئرز کی ڈین ویرا جلینک کہتی ہیں۔’’ تعزیرات کا خطرہ موجود ہے۔ امریکہ تعزیرات عائد کر سکتا ہے، اور یونیسکو کے خلاف تعزیرات عائد کی جا چکی ہیں۔ اگر یونیسکو کی مثال سامنے رکھیں، تو امداد ختم کی جا سکتی ہے۔ اسرائیل ٹیکسوں کی کچھ رقم کی ادائیگی کرتا ہے اور وہ اس رقم کو روک سکتا ہے۔‘‘
اس طرح فلسطینیوں کے لیے مالی دشواریوں میں اور اضافہ ہو جائے گا ۔ ورلڈ بنک کے مطابق، 2012 میں ان کو بجٹ میں ڈیڑھ ارب ڈالر کے خسارے کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
سیاسیات کے ماہر ایڈمنڈ غریب کہتے ہیں کہ ہو سکتا ہے کہ تھوڑے عرصے کے لیے اس اقدام سے فلسطینیوں کی مالی مشکلات میں اضافہ ہو جائے اور اسرائیل اور امریکہ کے ساتھ ان کے تعلقات کشیدہ ہو جائیں، لیکن وہ کہتے ہیں کہ اس کے سوا اور کوئی راستہ موجود نہیں ہے۔
’’لمبے عرصے کے لیے، فلسطینیوں کے پاس اس کے سوا اور کوئی چارہ نہیں ہے کہ وہ اپنا کیس پیش کریں، بین الاقوامی رائے عامہ کے سامنے اپنا موقف لائیں، کیوں کہ ان کے موقف کو نظر انداز کیا گیا ہے، اسے غیر اہم بنا دیا گیا ہے، اور اس کی اہمیت ختم کر دی گئی ہے ۔ اس طرح فلسطینیوں کے موقف کو کمزور کر دیا گیا ہے۔‘‘
تجزیہ کار کہتے ہیں کہ ان کے خیال میں فلسطینیوں کی حیثیت بلند تر ہونے سے ، مشرقِ وسطیٰ میں امن کے عمل کو نقصان نہیں پہنچے گا۔ ایک سال سے زیادہ عرصے سے، امن کا عمل تعطل کا شکار ہے۔
غریب کہتے ہیں کہ اس طرح امریکہ، اسرائیل اور دوسرے ملکوں پر دباؤ پڑے گا کہ وہ امن کے عمل کو تصادم کے متبادل کے طور پر زندہ کریں ۔ تجزیہ کار جلینک کہتی ہیں کہ صدر عباس نے یہ بات بھانپ لی ہے کہ فلسطینی اتھارٹی کی بہتر حیثیت کے لیے کافی حمایت موجود ہے اور اس طرح اسرائیل کے ساتھ مذاکرات میں ان کا موقف مضبوط ہو جائے گا۔
’’میرے خیال میں وہ سمجھتے ہیں کہ اگر یہ قرار داد منظور ہو جاتی ہے تو ان کی پوزیشن زیادہ مضبوط ہو جائے گی۔ بین الاقوامی سطح پر، اور اسرائیل کے مقابلے میں وہ زیادہ مضبوط پوزیشن میں ہوں گے۔ اسرائیل پرمذاکرات کی میز پر آنے کے لیے بین الاقوامی دباؤ میں اضافہ ہو گا۔‘‘
اقوامِ متحدہ میں فلسطین کا درجہ بہتر ہونے سے، فلسطینیوں پر کیا اثرات مرتب ہوں گے، اس کا پتہ چلنے میں کئی مہینے لگ سکتے ہیں۔
اسرائیل کے ساتھ امن کے عمل میں پیش رفت کے فقدان سے تنگ آکر، فلسطینی اتھارٹی نے گذشتہ نومبر میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی کمیٹی سے کہا کہ اس کی رکنیت کی درخواست پر غور کیا جائے ۔ کمیٹی مکمل رکنیت کی سفارش پر متفق نہ ہو سکی اور یہ کوشش مزید کسی کارروائی کے بغیر ختم ہو گئی ۔
اس ہفتے، فلسطینی اتھارٹی نے مختلف راستہ اختیار کیا ہے۔ وہ اب ایسے ملک کی حیثیت سے جو جنرل اسمبلی کا رکن نہیں ہے، مبصر کا درجہ حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے ۔
جمعرات کے روز، جو فلسطینی عوام کے ساتھ یکجہتی کا بین الاقوامی دن ہے، فلسطین کے صدر محمود عباس جنرل اسمبلی سے خطاب کریں گے ۔
اقوامِ متحدہ میں فلسطین کے سفیر ریاض منصور کہتے ہیں کہ تقریباً 60 ملک یہ قرارداد پیش کر رہے ہیں اور انہیں توقع ہے کہ اس کی منظوری کے لیے مطلوبہ سادہ اکثریت حاصل ہو جائے گی۔
لیکن توقع ہے کہ کئی یورپی ملک ووٹ ڈالنے سے احتراز کریں گے اور امریکہ اور اسرائیل سمیت کچھ ملک جو فلسطین کو مملکت کا درجہ دینے کے یک طرفہ اقدام کے مخالف ہیں، قرار داد کے خلاف ووٹ دیں گے۔
جارج واشنگٹن یونیورسٹی میں سیاسیات کے پروفیسر ایڈمنڈ غریب بتاتے ہیں کہ بین الاقوامی سطح پر بہتر حیثیت ملنے سے، فلسطینیوں کو کیا فوائد حاصل ہو سکتے ہیں۔
’’ اس اقدام کے نتیجے میں ،کسی حد تک، دنیا کی توجہ پھر اس مسئلے کی طرف مبذول ہو جائے گی۔ اس کے علاوہ، اس طرح فلسطینی موقف کو قانونی حیثیت حاصل ہو جائے گی اور فلسطینی اتھارٹی کی پوزیشن بھی زیادہ مضبوط ہو جائے گی۔ فلسطینیوں کے لیے پیشگی شرائط کے بغیر یا بستیاں بسانے کا سلسلہ ختم کیے یا ان کی تعمیر کو منجمد کیے بغیر، اسرائیلیوں کے ساتھ مذاکرات کرنا آسان ہو جائے گا۔‘‘
فلسطینی اتھارٹی کا درجہ بلند ہونے سے، فلسطینیوں کے لیے اقوامِ متحدہ میں رجسٹرڈ شدہ بین الاقوامی معاہدوں میں ، نیز ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن، اور انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن جیسی تنظیموں میں شامل ہونے کا راستہ کھل جائے گا۔ وہ انٹرنیشنل کرمنل کورٹ کے رکن بھی بن سکتے ہیں۔ اگر رکنیت قبول کر لی جاتی ہے، تو فلسطینی اتھارٹی پراسیکیوٹر سے درخواست کر سکتی ہے کہ فلسطینی علاقوں میں اسرائیلی اقدامات کی تفتیش کی جائے۔
رکنیت کے بغیر ملک کا درجہ حاصل کرنے کے کچھ منفی نتائج بھی بر آمد ہو سکتے ہیں۔
امریکہ فلسطینی اتھارٹی کو ملک کا درجہ دینے کی مخالفت کرتا رہا ہے ۔ اس کا کہنا ہے کہ فلسطینی ریاست کا قیام صرف مذاکرات کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ پیر کے روز محکمہ خارجہ کی ترجمان وکٹوریہ نلینڈ نے کہا کہ گذشتہ ہفتے وزیرِ خارجہ ہلری کلنٹن نے صدر عباس کو بتایا کہ امریکہ کا موقف تبدیل نہیں ہوا ہے۔
’ ہمارے خیال میں اس اقدام سے فلسطین کے لوگوں کے لیے مملکت کے حصول کی منزل قریب نہیں آئے گی۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ایسا کرنا غلطی ہو گی۔ ہم اس کے مخالف ہیں اور اس کی مخالفت کریں گے۔‘‘
امریکہ نے فلسطینیوں کے لیے 50 کروڑ ڈالر کی رقم مختص کی تھی ۔ نیو یارک یونیورسٹی کے سینٹر فار گلوبل افیئرز کی ڈین ویرا جلینک کہتی ہیں۔’’ تعزیرات کا خطرہ موجود ہے۔ امریکہ تعزیرات عائد کر سکتا ہے، اور یونیسکو کے خلاف تعزیرات عائد کی جا چکی ہیں۔ اگر یونیسکو کی مثال سامنے رکھیں، تو امداد ختم کی جا سکتی ہے۔ اسرائیل ٹیکسوں کی کچھ رقم کی ادائیگی کرتا ہے اور وہ اس رقم کو روک سکتا ہے۔‘‘
اس طرح فلسطینیوں کے لیے مالی دشواریوں میں اور اضافہ ہو جائے گا ۔ ورلڈ بنک کے مطابق، 2012 میں ان کو بجٹ میں ڈیڑھ ارب ڈالر کے خسارے کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
سیاسیات کے ماہر ایڈمنڈ غریب کہتے ہیں کہ ہو سکتا ہے کہ تھوڑے عرصے کے لیے اس اقدام سے فلسطینیوں کی مالی مشکلات میں اضافہ ہو جائے اور اسرائیل اور امریکہ کے ساتھ ان کے تعلقات کشیدہ ہو جائیں، لیکن وہ کہتے ہیں کہ اس کے سوا اور کوئی راستہ موجود نہیں ہے۔
’’لمبے عرصے کے لیے، فلسطینیوں کے پاس اس کے سوا اور کوئی چارہ نہیں ہے کہ وہ اپنا کیس پیش کریں، بین الاقوامی رائے عامہ کے سامنے اپنا موقف لائیں، کیوں کہ ان کے موقف کو نظر انداز کیا گیا ہے، اسے غیر اہم بنا دیا گیا ہے، اور اس کی اہمیت ختم کر دی گئی ہے ۔ اس طرح فلسطینیوں کے موقف کو کمزور کر دیا گیا ہے۔‘‘
تجزیہ کار کہتے ہیں کہ ان کے خیال میں فلسطینیوں کی حیثیت بلند تر ہونے سے ، مشرقِ وسطیٰ میں امن کے عمل کو نقصان نہیں پہنچے گا۔ ایک سال سے زیادہ عرصے سے، امن کا عمل تعطل کا شکار ہے۔
غریب کہتے ہیں کہ اس طرح امریکہ، اسرائیل اور دوسرے ملکوں پر دباؤ پڑے گا کہ وہ امن کے عمل کو تصادم کے متبادل کے طور پر زندہ کریں ۔ تجزیہ کار جلینک کہتی ہیں کہ صدر عباس نے یہ بات بھانپ لی ہے کہ فلسطینی اتھارٹی کی بہتر حیثیت کے لیے کافی حمایت موجود ہے اور اس طرح اسرائیل کے ساتھ مذاکرات میں ان کا موقف مضبوط ہو جائے گا۔
’’میرے خیال میں وہ سمجھتے ہیں کہ اگر یہ قرار داد منظور ہو جاتی ہے تو ان کی پوزیشن زیادہ مضبوط ہو جائے گی۔ بین الاقوامی سطح پر، اور اسرائیل کے مقابلے میں وہ زیادہ مضبوط پوزیشن میں ہوں گے۔ اسرائیل پرمذاکرات کی میز پر آنے کے لیے بین الاقوامی دباؤ میں اضافہ ہو گا۔‘‘
اقوامِ متحدہ میں فلسطین کا درجہ بہتر ہونے سے، فلسطینیوں پر کیا اثرات مرتب ہوں گے، اس کا پتہ چلنے میں کئی مہینے لگ سکتے ہیں۔