اسرائیل کی غزہ میں جاری جنگ میں حماس کے زیرِ انتظام محکمۂ صحت کے مطابق اموات کی تعداد 25 ہزار ہو گئی ہے۔ دوسری جانب اسرائیلی فوج اب بھی طے کردہ اہداف حماس کا مکمل خاتمہ اور 100 یرغمالوں کی بازیابی میں کامیاب ہوتی نظر نہیں آ رہی۔
خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ کے مطابق غزہ میں لڑائی کے دوران اموات، تباہی اور فلسطینیوں کی نقل مکانی کی کئی دہائیوں سے جاری تنازعے میں پہلے اس طرح کی نظیر نہیں ملتی۔ تاہم اسرائیلی حکام مسلسل کہہ رہے ہیں کہ حماس کے خلاف جنگ کئی ماہ تک جاری رہ سکتی ہے۔
اسرائیلی کی انتہائی سست پیش رفت اور غزہ میں عسکری تنظیموں کے ہاتھوں یرغمال افراد کی بازیابی نہ ہونے کے سبب اسرائیل میں عام شہریوں اور ان کے رہنماؤں میں بھی پالیسی پر تقسیم نظر آتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اب لبنان، شام، عراق اور یمن میں ایران کے حامی عسکری گروہ بھی فلسطینیوں کی حمایت میں اس جنگ میں شامل ہو رہے ہیں۔
امریکہ اسرائیل کی سفارتی سطح پر بھر پور حمایت کے ساتھ ساتھ اس کی عسکری مدد بھی کر رہا ہے۔ البتہ وہ اسرائیلی حکام کو عام فلسطینیوں کے جانی نقصان اور غزہ میں زیادہ سے زیادہ امداد کی فراہمی کے لیے اسرائیل کو قائل نہیں کر سکا ہے۔
اسرائیل کے وزیر اعظم بن یامین نیتن یاہو جنگ کے خاتمے کے بعد امریکہ اور عالمی برادری کے دو ریاستی حل کو مسلسل مسترد کرتے رہے ہیں۔
غزہ میں جنگ اس وقت شروع ہوئی تھی جب اس کی ساحلی پٹی پر کئی برس سے حکمرانی کرنے والے عسکری گروہ حماس نے سات اکتوبر کو اسرائیل پر زمین، فضا اور بحری راستے سے غیر متوقع حملہ کیا تھا۔
اس حملے میں اسرائیلی حکام کے مطابق 1200 افراد ہلاک ہوئے تھے جن میں فوجی اہلکار بھی شامل تھے۔ حماس نے حملے میں 240 افراد کو یرغمال بنا لیا تھا جن میں سے نصف سے زائد کو نومبر میں عارضی جنگ بندی کے معاہدے کے دوران رہا کر دیا گیا تھا۔
Your browser doesn’t support HTML5
سات اکتوبر کو حماس کے حملے کے بعد اسرائیل نے غزہ کا محاصرہ کرتے ہوئے حماس کے خاتمے اور یرغمالوں کی رہائی تک جنگ جاری رکھنے کا اعلان کیا تھا۔
حماس کے زیرِ انتظام غزہ کی وزارتِ صحت نے اتوار کو اعداد و شمار جاری کیے ہیں جن کے مطابق 106 دن سے جاری جنگ میں 25 ہزار 105 افراد ہلاک ہوئے ہیں جب کہ 62 ہزار 800 سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔
محکمۂ صحت کے مطابق ہفتے کو جزوی طور پر فعال بعض صحت کے مراکز میں مزید 178 افراد کی لاشیں لائی گئیں جب کہ مزید 300 زخمیوں کو علاج فراہم کیا گیا۔
محکمۂ صحت کی جانب سے ہلاک افراد میں عام شہریوں اور جنگجوؤں کی تفصیلات فراہم نہیں کرتا۔
واضح رہے کہ اقوامِ متحدہ کے ماتحت ایجنسی کہہ چکی ہے کہ غزہ جنگ کے سب سے زیادہ متاثرہ خواتین اور بچے ہیں۔
ایجنسی کا کہنا ہے کہ جنگ میں اب تک 16 ہزار سے زائد بچے اور خواتین کی اموات ہوئی ہیں۔
دوسری جانب اسرائیل کی فوج کی جانب سے دعویٰ کیا جاتا ہے کہ اس نے جنگ کے دوران اب تک نو ہزار جنگجوؤں کو ہلاک کیا ہے۔ تاہم اس دعوے کے حق میں ثبوت فراہم نہیں کیے جاتے۔
Your browser doesn’t support HTML5
غزہ جنگ کے آغاز سے اب تک اسرائیلی فوج کے مطابق 500 سے زائد اہلکار ہلاک ہوئے ہیں جن میں 195 اہلکار زمینی کارروائی شروع ہونے کے بعد مارے گئے ہیں۔
غزہ میں جنگ کے آغاز کے بعد اس کی 90 فی صد کے قریب آبادی نقل مکانی پر مجبور ہوئی ہے۔ اس ساحلی پٹی میں لگ بھگ 23 لاکھ فلسطینی بستے ہیں۔ جس کے دو طرف اسرائیل ایک جانب سمندر اور ایک جانب مصر کی سرحد ہے۔
غزہ جنگ طویل ہونے اور یرغمالوں کی عدم بازیابی کے ساتھ ساتھ اسرائیل میں حکومت سے مستعفی ہونے اور نئے انتخابات کے انعقاد کا مطالبہ بھی سامنے آ رہا ہے۔
حماس پہلے ہی اعلان کر چکی ہے کہ وہ مکمل جنگ بندی تک مزید کسی یرغمالی کو رہا نہیں کرے گی۔
اسرائیلیوں کی ایک بڑی تعداد کی جانب سے حکومت سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ وہ حماس سے اسرائیلی جیلوں سے فلسطینی قیدیوں کی رہائی کے بدلے یرغمالوں کی واپسی کا معاہدہ کرے۔ اسی طرز کا عارضی معاہدہ نومبر میں بھی کیا گیا تھا۔
اسرائیلی شہر تل ابیب میں ہفتے کو بھی بڑی تعداد میں شہریوں نے احتجاج کیا۔ مظاہرین حکومت سے نئے انتخابات کے انعقاد کا مطالبہ کر رہے تھے۔
وزیرِ اعظم بن یامین نیتن یاہو کی حکومت میں شامل قدامت پسند اتحادی ان پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ وہ فلسطینیوں کو غزہ سے کہیں اور منتقل ہونے کے لیے کارروائی تیز کریں جب کہ غزہ میں بھی یہودیوں کی آباد کاری کے لیے نئی بستیاں بنائی جائیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
واضح رہے کہ غزہ میں 2005 تک اسرائیل کی فوج موجود تھے۔ اسرائیلی فوج کے انخلا کے دو برس بعد حماس 2007 میں غزہ میں برسرِ اقتدار آئی تھی اور اس کے بعد مسلسل اس ساحلی پٹی پر حکومت کر رہی تھی۔
(اس تحریر میں خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ سے معلومات شامل کی گئی ہیں۔)