عسکریت پسند تنظیم حماس کے عہدے داروں کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ جنگ بندی کے معاہدے میں قیدیوں کی رہائی میں سب سے ہائی پروفائل قیدی مروان برغوتی کی رہائی شامل ہونی لازمی ہے جن کا نام فلسطینی اتھارٹی کے صدرمحمود عباس کے ممکنہ جانشین کے طور پر لیا جاتا رہا ہے۔
مروان برغوتی کو جو الفتح پارٹی کے سابق اعلیٰ عہدے دار ہیں، 2002 میں حراست میں لیا گیا تھا اور وہ اسرائیلیوں کے خلاف کئی ہلاکت خیز حملوں میں ملوث ہونے کے الزام میں عمر قید کی سزا کاٹ رہے ہیں۔ برغوتی کا نام صدر محمود عباس کے ممکنہ جانشین کے طور پر لیا جاتا رہا ہے۔۔
عسکریت پسند گروپ حماس کا مطالبہ فلسطینی سیاست میں برغوتی کے مرکزی کردار کی نشاندہی کرتا ہے جو دو دہائیوں سے زیادہ عرصے سے جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
برغوتی کی قید تنہائی میں منتقلی پر، ’Palestinian Prisoners Club‘ کی تشویش
فلسطینی قیدیوں کی وکالت کرنے والے ایک گروپ نے پیر کے روز کہا کہ اسے اسرائیل کے سب سے ہائی پروفائل قیدی مروان برغوتی کے بارے میں تشویش ہے، جنہیں منتقل کر کے قید تنہائی میں رکھا گیا ہے۔
الفتح پارٹی کے سابق اعلیٰ عہدے دار کو 2000 کی دہائی کے اوائل میں ہونے والے حملوں کے سلسلے میں اسرائیلی عدالت میں سزا سنائے جانے کے بعد متعدد عمر قید کی سزائیں سنائی جا رہی ہیں۔
انہیں تواتر سے فلسطینی صدر محمود عباس کے ممکنہ جانشین سے تعبیر کیا جاتا رہا ہے۔
اسرائیل کے دائیں بازو کے سخت گیر قومی سلامتی کے وزیر اتمار بین گویر نے 14 فروری کو کہا کہ برغوتی کو "تخریب کاری کے منصوبے کے بارے میں معلومات کے بعد" اوفر جیل سے قید تنہائی میں منتقل کیا گیا ہے۔
انہوں نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم X پر جو پہلے ٹویٹر تھا، لکھا"وہ دن ختم ہو گئے جب دہشت گرد جیل کو چلاتے تھے۔"
Your browser doesn’t support HTML5
فلسطینی موقف
اسرائیلی جیلوں میں قید فلسطینی قیدیوں کی وکالت کرنے والے کلب کے سربراہ قدورا فارس نے کہا کہ 65 سالہ برغوتی کو گزشتہ دو ماہ میں تین بار منتقل کیا گیا ہے۔
انہوں نے ایک بیان میں کہا، "وکلاء کو ان کے(برغوتی کے) پاس جانے سے روکنا ان کی زندگی کے لیے ایک حقیقی خوف پیدا کرتا ہے، خاص طور پر ایسی صورت حال میں جب اس کے ساتھ اسرائیلی میڈیا میں ان کے خلاف براہ راست اور مسلسل اشتعال انگیزی کی جا رہی ہے۔"
فارس نے کہا کہ اسرائیل پر 7 اکتوبر کو حماس کے حملوں کے بعد سے (اسرائیل) فلسطینی قیدیوں کے خلاف، بڑے پیمانے پر جیلوں سے منتقلی، قید تنہائی اور "منظم تشدد" کا استعمال کر رہا ہے۔
انہوں نے اسرائیل پر اس بارے میں بین الاقوامی دباؤ پر زور دیا کہ وہ زیادتیوں کو روکے اور جیلوں کے دوروں کی اجازت دے، جنہیں حملوں کے بعد سے معطل کر دیا گیا ہے۔
فلسطینی قیدیوں کے کلب کے مطابق حماس کے ساتھ جنگ سے قبل اسرائیلی جیلوں میں 5 ہزار 200 سے زیادہ فلسطینی قیدی تھے۔
اس کے بعد سے، مقبوضہ مغربی کنارے میں بڑے پیمانے پر گرفتاریوں کی مہم میں حماس اور دیگر فلسطینی گروپوں کے سابق رہنماؤں اور عہدیداروں سمیت سات ہزار سے زیادہ افراد کو حراست میں لیا گیا ہے۔
اس رپورٹ میں کچھ معلومات ایجنسی فرانس پریس سے لی گئی ہیں۔