گزشتہ ہفتے واشنگٹن میں ہونے والے مشرقِ وسطیٰ امن مذاکرات میں خطے کے رہنمائوں نے آئندہ ایک سال کے عرصے میں اسرائیل اور فلسطین کے درمیان موجود تنازعات کا متفقہ حل تلاش کرنے پہ اتفاق کیا ۔ خطے کے حل طلب چند اہم ترین مسائل میں سے ایک ان لاکھوں فلسطینیوں کو اپنے آبائی علاقوں کو واپسی کا حق دینا ہے جو گزشتہ کئی دہائیوں سے اپنی سرزمین سے دور دیگر عرب علاقوں میں پناہ گزینوں کی حیثیت سے زندگی گزار رہے ہیں۔
62 سالہ فرحت فرحت بھی ایسے ہی ایک تارکِ وطن ہیں جو خود کو صرف اس لیے خوش قسمت گردانتے ہیں کہ وہ فلسطین میں پیدا ہوئے۔ فرحت 1948 میں صرف سات ماہ کے تھے جب ان کے بھیڑ بکریاں چرانے والے والدین کو اپنے تمام مویشیوں کے ساتھ لبنان ہجرت کرنی پڑی۔ تاہم فرحت کے خاندان کا پالتو کتا راستے ہی سے واپس فلسطین کی طرف پلٹ گیا تھا۔ فرحت سمجھتے ہیں کہ ان کا پالتو کتا ان لوگوں سے زیادہ عقل مند تھا کیونکہ اس نے ان کے خاندان کے برعکس اپنے ملک میں ٹہرنے کو ترجیح دی تھی۔ اب وہ خود بھی یہ چاہتے ہیں کہ ان کا خاندان ایک بار پھر اپنے آبائی وطن لوٹ جائے۔
اقوامِ متحدہ کے زیرِ انتظام چلنے والے فلسطینی پناہ گزینوں کے شتیلہ نامی اس کیمپ کی ایک تنگ گلی میں بیٹھے فرحت اپنی وطن واپسی کے حق پہ کوئی سمجھوتہ کرنے پہ تیار نہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ انہیں وہاں یہودیوں کی موجودگی پہ کوئی اعتراض نہیں کیونکہ ان کے مطابق دونوں مذاہب کے ماننے والے فلسطین میں ایک عرصے تک ساتھ ساتھ رہتے رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ مسائل اس وقت پیدا ہوئے جب خود ان کے مطابق "غیر ملکی یہودیوں" کی فلسطین میں آباد کاری کر کے اسرائیل کی ریاست تخلیق کی گئی۔
فرحت کے پاس اسرائیل فلسطین تنازعہ کا ایک سادہ حل موجود ہے، فلسطینی پناہ گزینوں کو واپسی کا حق دے کر تمام "غیرملکیوں" کو نکال باہر کیا جائے ۔
تاہم فرحت کی خواہشات کے برعکس فلسطینی علاقوں کے نظم و نسق کی ذمہ دار اتھارٹی اسرائیل کا حقِ موجودگی تسلیم کرتی ہے۔ اور اگر گزشتہ ہفتے شروع ہونے والا امن بات چیت کا عمل بغیر کسی تعطل کے جاری رہا تو آئندہ 12 ماہ کے دوران دونوں اطراف کے مذاکرات کاروں کی کوششوں کا مقصد "کچھ لو اور کچھ دو" کے اصول کے تحت کسی سمجھوتے کا حصول ہوگا۔
کیا واپسی ممکن ہے؟
پناہ گزینوں کی اپنے آبائی علاقوں کو واپسی کا حق دیے جانے کا معاملہ فلسطین کی جانب سے اسرائیل کو پیش کیے جانے والے مطالبات میں ہمیشہ سرِ فہرست رہا ہے۔ تاہم اسرائیل ماضی میں فلسطین سے نقل مکانی کرجانے والے افراد کی دوبارہ آبادکاری کے ایسے کسی بھی حق کی موجودگی کا سرے سے انکاری ہے۔ اسرائیل کا موقف ہے کہ "واپسی کا حق" جیسا کوئی لفظ پناہ گزینوں کی قانونی حیثیت اور حقوق کے حوالے سے موجود اقوامِ متحدہ کی قرارداد میں بھی موجود نہیں جو "پناہ گزینوں کو اپنے علاقوں میں واپسی کی 'اجازت' ہونی چاہیے" جیسے نرم الفاظ میں اس اہم ترین انسانی مسئلہ کو اجاگرکرتی ہے۔
تاہم فرحت جیسے لوگوں کے نزدیک اپنے آبائی علاقے سے بے دخل ہونے والے افراد کی اپنی متروکہ بستیوں کو واپسی ان کا ایک فطری حق ہے۔ ایک ایسا حق جس پہ کوئی سمجھوتہ نہیں ہوسکتا!! فرحت کی حیثیت پناہ گزینوں کے "شتیلہ" نامی اس کیمپ میں ایک بزرگ سیاسی مدبر کی سی ہے جن کا کہنا ہے کہ یہاں مقیم فلسطینی درحقیقت اپنے بنیادی انسانی حقوق سے بھی محروم ہیں۔ فرحت کے الفاظ میں "لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ یہاں زندگی گزار رہے ہیں، جبکہ درحقیقت وہ یہاں زندگی کاٹ رہے ہیں"۔ فرحت کی اس بات سے یہ حقیقت مترشح ہوتی ہے کہ اس جیسے بیشتر لوگوں نے یہاں ایک عرصہ گزاردینے کے باوجود اس کیمپ کو کبھی بھی اپنا گھر نہیں سمجھا اور شاید نہ ہی کبھی سمجھ پائینگے۔
اور شاید یہی سچ ہے۔ پناہ گزینوں کی اس آبادی کو کسی بھی طرح سے ایک متمدن بستی قرار نہیں دیا جاسکتا۔ سالوں کی خانہ جنگی اور تنازعات کے دوران کئی بار تباہ ہونے کے باوجود یہ کیمپ خودرو جھاڑیوں کی طرح سے بڑھتا پھیلتا رہا ہے۔ کیمپ کی سرنگ نما گلیوں میں ہوا اور روشنی کا گزر نہ ہونے کے برابر ہے جہاں ہر جانب الجھتے لٹکتے بجلی کے تار کسی بھی وقت کسی نئے حادثے کو جنم دے سکتے ہیں۔
کیا لبنان ہی جائے قرار ہے؟
شتیلہ اور اس کے ساتھ صابرہ نامی اسی طرز کا ایک اور فلسطینی پناہ گزینوں کا کیمپ 1982 میں ہونے والے اس قتلِ عام کے شاہد ہیں جب ان کی گلیوں میں اسرائیل کے لبنانی عیسائی اتحادیوں نے یہاں کے باسیوں کا بے دریغ خون بہایا تھا۔
شاید ایسی ہی تلخ یادوں کے پیشِ نظر فرحت اپنی ناگفتہ بہ حالت اور مسائل کا ذمہ دار اسرائیلیوں کے ساتھ ساتھ لبنانیوں کو بھی ٹہراتے ہیں جنہوں نے کئی پشتیں گزر جانے کے بعد بھی اپنی سرزمین پر فلسطینیوں کی موجودگی کو دل سے قبول نہیں کیا۔
لبنانی ان فلسطینیوں کے ساتھ عشروں سے جاری اپنے اس برے سلوک کی وجہ یہ بیان کرتے ہیں کہ اگر ان کی جانب سے فلسطینی پناہ گزینوں کو مزید حقوق اور آسائش فراہم کردیے گئے تو اس عمل سے وہ بنیادیں متاثر ہوسکتی ہیں جن پہ فلسطینیوں کی جانب سے آزاد ریاست کے حصول کی جدوجہد استوار ہے۔
تاہم معاملہ اتنا سادہ بھی نہیں۔ کئی لوگوں کے خیال میں فلسطینی پناہ گزینوں کو شہریت کے حقوق کی فراہمی اور انہیں معاشرے میں گھلنے ملنے دینے سے لبنانی معاشرے میں موجود انتہائی پیچیدہ نسلی و مذہبی توازن متاثر ہوسکتا ہے۔ جبکہ پناہ گزینوں کو مزید حقوق کی فراہمی کے کئی مخالفین اپنی مخالفت کی دلیل میں 1975 سے 1990 کے دوران جاری رہنے والی لبنانی خانہ جنگی میں فلسطینیوں کے کردار کا تذکرہ کرتے ہیں جس کی تلخی اور مصائب کو لبنان آج بھی نہیں بھولا۔
فلسطینی پناہ گزینوں کے مسئلہ کے مستقل حل کی راہ میں کئی اور رکاوٹیں بھی حائل ہیں جن میں سے ایک ان کی بڑھتی ہوئی تعداد ہے۔ 1948 میں اسرائیل کے قیام کے باعث اپنی زمینوں سے بے دخل ہوکر ہجرت کرنے والے فلسطینیوں کی تعداد لگ بھگ سات لاکھ تھی جنہوں نے خطے کے مختلف ممالک میں پناہ حاصل کی تھی۔ آج عشروں بعد ان پناہ گزینوں کی تعداد بڑ ھ کر چالیس لاکھ تک پہنچ گئی ہے۔
بظاہر اسرائیل کیلیے ان تمام لوگوں کو واپس انکی سرزمین پہ خوش آمدید کہنا ممکن نظر نہیں آتا کیونکہ اتنی بڑی تعداد میں عرب مسلمانوں کی موجودہ اسرائیلی علاقوں میں آبادکاری کے بعد اسرائیل میں آبادی کا تناسب بگڑ جائے گا اور پھر تجزیہ نگاروں کے مطابق شاید اسرائیل ایک یہودی اکثریتی ملک ہونے کا دعویٰ کرنے کے قابل نہ رہ سکے۔
پناہ گزینوں کی نئی نسل، نئے مسائل
پناہ گزینوں کے اس کیمپ کی بھول بھلیوں نما گلیوں میں فٹبال کے پیچھے دوڑتے بھاگتےاور آپس میں ایک دوسرے کو کھلونا بندوقوں سے نشانہ بنانے کا کھیل کھیلتے بچوں کے گروہ کے گروہ آبادی میں اس اضافے کی نشاندہی کرتے ہیں۔ کھلونا بندوقوں اورگھروں میں بنائے گئے پٹاخوں کی مدد سے یہ بچے انہی گلیوں میں اپنے ہی جیسے بچوں پہ مشتمل "دشمنوں" کے گروپ سے دوبدو جنگ میں مصروف نظر آتے ہیں۔
کھیل میں مصروف ان بچوں میں سے ایک کا والد اپنے بیٹے کے ذہن میں سجی ارضِ وطن فلسطین کی ان دیکھی تصویر میں بساط بھر رنگ بھرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ 47 سالہ ولید طحہ کی پیدائش یوں تو شتیلہ کے اسی کیمپ میں ہوئی ہے لیکن وہ اپنے والدین اور بزرگوں سے سنی ہوئی باتوں اور داستانوں کی بنیاد پر اپنے بیٹے کو فلسطین میں گزرے اپنے خاندان کے ماضی، آبائی گائوں، وہاں کے مناظر اور آب و ہوا اورگلیوں اور رہائشیوں سے روشناس کراتا ہے۔
لیکن فلسطین سے والہانہ محبت کے باوجود ولید کو اپنے آبائی علاقے میں واپسی کا خواب تعبیر میں ڈھلتا نظر نہیں آتا۔
اس کا کہنا ہے کہ اس نے اپنی ساری عمر لبنان کے اس کیمپ میں گزار دی ہے اور اب وہ اپنے اس بھائی سے ہر لحاظ سے مختلف ہے جس نے اپنے خاندان کے ساتھ ہجرت کرنے کے بجائے اپنے علاقے ہی میں ٹہرنے کو ترجیح دی تھی جو اب اسرائیل کا حصہ ہے۔ ولید سمجھتا ہے کہ اسرائیل میں موجود عربوں کے برعکس فلسطینی پناہ گزینوں کیلیے اسرائیلیوں کے ساتھ زندگی گزارنا ممکن نہیں ہوگا۔
ولید کی پیدائش شتیلہ کے اِس کیمپ کے جس چھوٹے سے کمرے میں ہوئی تھی آج وہاں اس کے خاندان کی ایک دکان ہے۔ اپنی اور اپنے خاندان کی تمام تر مشکلات کے باوجود اس کا کہنا ہے کہ وہ جذبات کے بجائے حقائق کی بات کرتا ہے اور اس کے نزدیک حقیقت یہ ہے کہ وہ ایک لبنانی شہری ہے جس کی اس وقت سب سے بڑی خواہش یہ ہے کہ اسے کیمپ کی حدود سے باہر نکل کر کاروبار کرنے کی اجازت دے دی جائے تاکہ وہ اپنے خاندان کی بڑھتی ہوئی ضروریات پورا کرسکے۔
شاید مستقبل روشن ہو!!
ولید کے مطابق فلسطینی پناہ گزینوں کی جس نسل سے وہ تعلق رکھتا ہے وہ انقلاب، جنگ اور قتل و غارت کے درمیان پروان چڑھی ہے ۔ اور اس کے خیال میں شاید اسی سبب اسرائیلیوں کے ساتھ پرامن بقائے باہمی کے اصول کے تحت زندگی گزارنا اسے اپنے لیے ناممکن نظر آتا ہے۔تاہم ولید کی تجویز ہے کہ خصوصی اقدامات کے ذریعے اسرائیلی اور فلسطینی بچوں کو ایک دوسرے کے قریب لا کر اور گھلنے ملنے کے مواقع فراہم کرکے دونوں قوموں کی آنے والی نسلوں کو اکٹھے رہنا سکھایا جاسکتا ہے۔ اور اسے یقین ہے کہ کبھی نہ کبھی ایسا ہو کے رہے گا۔
تاہم ولید کا تجویز کردہ راستہ اس سے مختلف ہے جس پہ فرحت یقین رکھتے ہیں۔ ادھیڑ عمر فرحت کا کہنا ہے کہ وہ چالیس سال تک ایک مزاحمت کار رہے ہیں جو اپنے ملک اور اپنے اعتقاد و نظریات کیلیے لڑتا رہا ہے۔ اور وہ اپنے بچوں کو بھی وطن سے ایسی ہی محبت سونپنا چاہتے ہیں۔
فرحت کا کہنا ہے کہ اگر سیاسی ذرائع سے مقصد کا حصول ناممکن ہوجائے تو ان کے بچوں کو بھی اپنے حق کیلیے لڑنا ہوگا۔ وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے جو بندوق چالیس سال پہلے اٹھائی تھی، وہ اب اسے اپنی نئی نسل کے ہاتھوں میں دے رہے ہیں تاکہ ضرورت پڑنے پروہ اس کا استعمال کرسکے۔
تاہم دو سال کے تعطل کے بعد امن مذاکرات کے بحالی سے یہ امید ہوچلی ہے کہ فرحت جیسے افراد کی امیدوں کے برعکس شاید اب طاقت اور تشدد کے استعمال کی ضرورت پیش نہ آئے۔ لیکن یقیناً اس بار بھی مذاکرات کاروں کیلیے پناہ گزینوں کے مستقبل کا واضح فیصلہ کیے بغیر فلسطین اسرائیل تنازعے کا کوئی بھی حل نکالنا ممکن نہیں ہوگا۔ تاہم اپنی سرزمین سے بے دخل ہوکر ایک اجنبی سرزمین میں زندگی گزارنے والوں کا مستقبل کیا ہوگا، اس سوال کا جواب ابھی تلاش کیا جانا باقی ہے۔